اسلام آباد: الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی
الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
ڈان نیوز کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری،انجم عقیل خان اور راجا خرم نواز کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت کے دوران وکیل پاکستان تحریک انصاف نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے تھوڑی دیر سماعت مؤخر کردیں، امیدوار شعیب شاہین کچھ دیر تک آجائیں گے۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے سماعت مؤخر کرنے کی مخالفت کردی۔
بعد ازاں ممبر بلوچستان نے کہا کہ ابھی تک عدالت سے اسٹے نہیں آیا، اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی وکیل کی درخواست رد کردی۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے دلائل سن لیتے ہیں آپ نوٹس لے لیں۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما انجم عقیل خان کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ٹربیونل میں امیدوار کی عدم موجودگی میں پہلا فیصلہ دیا گیا، ٹربیونل کی جانب سے ہدایت دی گئی فارم 47 اور 45 اکٹھے کیے جائیں، ہم نے لکھا کہ الیکشن کمیشن نے ریٹرنگ امیدوارن کو نوٹیفائی کیا، ٹربیونل الیکشن کمیشن کی بنائی گئی باڈی ہے، ٹربیونل الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری نہیں کرسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ 30 مئی کو وکلا اور لیگی امیدواران ٹربیونل کے سامنے پیش ہوئے، ہمیں یہ محسوس ہورہا ہے کہ ٹربیونل ہمیں وقت نہیں دے رہا،اور جلدی میں معاملہ چلایا جارہا ہے۔
اس موقع پر شعیب شاہین بھی کمرہ عدالت پہنچ گئے، شعیب شاہین نے کہا کہا ہم نے الیکشن کمیشن کے آرڈر کو چیلنج کیا ہے، اس سے متعلق ابھی فیصلہ آنا باقی ہے ہوسکتا ہے ہمیں اسٹے مل جائے، آپ ہمیں سوموار تک کا وقت دے دیں۔
اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ اگر کسی عدالت کی طرف سے سماعت نہ کرنے یا روکنے کا حکمنامہ ہے تو لے آئیں، مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار الیکشن کمیشن کے لگائے گئے رجسٹرار نہیں ہیں، ٹربیونل میں امیدوار کی عدم موجودگی میں پہلا فیصلہ دیا گیا، ٹربیونل کی جانب سے ہدایت دی گئیں فارم 45 اور 47 اکٹھے کیے جائیں، ہم نے لکھا کہ الیکشن کمیشن نے ریٹرنگ امیدوارن کو نوٹیفائی کیا، الیکشن ٹربیونل نے مقررہ وقت کے بعد بھی پٹیشنز سماعت کے لیے مقرر کیں۔
وکیل مسلم لیگ (ن) نے بتایا کہ الیکشن ٹربیونل نے تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کے نوٹسز بھجوائے، ٹربیونل نے الیکشن کمیشن کو بھی نوٹسز جاری کرنے کی ہدایات دیں۔
کیا الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹربیونل ہدایات دے سکتا ہے؟ اکرام اللہ
اس پر ممبر خیبرپختونخواہ اکرام اللہ نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹربیونل ہدایات دے سکتا ہے؟ جس ادارہ نے الیکشن ٹربیونل کو تخلیق کیا وہ اسے ہدایات دے سکتا ہے؟ وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ٹربیونل ہدایات نہیں دے سکتا۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل نے تو ہدایات آر اوز کو دی ہوں گی، وکیل نے بتایا کہ شہادت،گواہی نہ لیے جانے کے باوجود ارکان اسمبلی کو آخری موقع دیا گیا، الیکشن ٹربیونل نے ہمیں موقع نہیں دیا، الیکشن ٹربیونل طریقہ کار کے تحت کام نہیں کررہا، ہم نے اعتراض کیا پٹیشنز غیر قانونی طور پر دائر ہوئیں، الیکشن ٹربیونل نے پٹیشنر کو درخواستوں میں غلطیوں کو درست کرنے کا موقع دے دیا، ہمیں خدشہ ہے کہ الیکشن ٹربیونل سے انصاف نہیں ملے گا، کوڈ آف سول پراسیجر اس کیس میں اپلائی ہوسکتا ہے، اس کیس میں دونوں جانب سے سنا جانا ہے، اگر کسی ایک پارٹی کو نہیں سنا جاتا تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، ان کی اپنی درخواست میں لکھا ہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں۔
اس موقع پر ممبر خیبر پختونخوا نے کہا کہ ان کی جانب سے کہا گیا کہ بیگ لائے گئے پھر کھولے گئے، آپ یہ کہنا چارہے ہیں کہ جوڈیشل طریقے کار کو دیکھا نہیں گیا؟ وکیل مسلم لیگ (ن) نے دلائل دیے کہ جی بالکل اس معاملے میں جوڈیشل مینرز کو نہیں اپنایا گیا، چارج ہونے سے پہلے بحث ہوتی پے، پھر ثبوت پیش کیے جاتے ہیں پھر کراس چیک ہوتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نےریمارکس دیے کہ آپ اتنی دیر سے یہ نہیں کہہ پارہے کہ ثبوت نہیں پیش کیے گئے۔
اسی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے رہنما انجم عقیل کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجا خرم نواز کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ ٹرائل کورٹ اور ٹربیونل میں ثبوت پیش کیے جانے ہوتے ہیں، ایک امیدوار کی جانب سے جیب سے ایک کاغذ نکال کردیا جاتا ہے اور کہتے ہیں یہ ہے ثبوت اور ان ثبوت کو مان بھی لیا جاتا ہے، ہمیں اس دستاویز پر کراس بحث کا موقع نہیں دیا گیا، ٹرائل ثبوت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، ٹرائل کورٹ کو سو موٹو کے اختیارات نہیں دیے گئے، ٹربیونل کے جج کو ہائی کورٹ کے جج کے اختیارات دیے گئے جو نہیں دیے جاسکتے
وکیل راجہ خرم نواز کا کہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ کی پاور استعمال نہیں کرسکتے وہ پاور استعمال ہوسکتی ہے جو الیکشن کمیشن دے، ٹرائل ہوا ہی نہیں ،سی پی سی کو فالو ہی نہیں کیا گیا۔
بعد ازاں وکیل طارق فضل چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ الیکشن پٹیشن کبھی الیکشن ٹریبونل کے سامنے پیش نہیں کی گئی، پٹیشن ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کی گئی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کہا کہ ہو سکتا ہے ہائی کورٹ رجسٹرار کو ٹریبونل کے لیے بھی مقرر کیا گیا ہو، کیا الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے رجسٹرار تقرری کی کوئی تجویز آئی؟ آپ کہہ رہے کہ نہ اسلام آباد ہائی کورٹ نہ ہی الیکشن کمیشن نے رجسٹرار ٹریبونل کا کوئی نوٹیفکشن کیا۔
وکیل طارق فضل نے جواب دیا کہ درخواست کو درست کرنے کے لیے ڈپٹی رجسٹرار آفس ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو سات دن کا اضافی وقت دیا، پٹیشن 56 دن بعد دائر کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا ریکارڈ طلب کیا جا سکتا ہے ؟ آفیشل ریکارڈ طلب کرنے کا طریقہ کار ہے، جب کوئی فریق چاہیے تو وہ آفیشل کو طلب کروا سکتا ہے ، نہ کہ ٹریبونل، کیسے ٹریبونل نے پہلے دن سماعت کے، بغیر مینڈیٹ کے الیکشن کمیشن سے ریکارڈ کیسے مانگ لیا؟ ٹریبونل کی کارروائی غیر قانونی ہے ، ہمیں فئیر ٹرائل نہیں دیا جا رہا، ایشو فریم کیے بغیر کارروائی کی جا رہی ہے ، ٹربیونل جج متعصب ہے ، جانبداری کر کر رہا ہے، ہمیں ٹریبیونل جج سے انصاف کی توقع نہیں۔
بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی بخاری کے وکیل نے دلائل کا آغاز کر دیا، انہوں نے بتایا کہ فارم 45 سامنے لانے سے کیا ہو جائے گا؟ دونوں پارٹیز نے اپنے اپنے فارمز دینے ہیں ، ٹریبونل نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ٹیمپرنگ ہوئی ہے اور نہ ایسی ابزرویشن دی، ٹریبونل نے فارمز آنے کے بعد ان کا موزانہ کرنا ہے اور اصلی اور جعلی ہونے کا فیصلہ کرنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن ٹریبونل نے ان سے اوریجنل فارمز مانگے ، تین حلقوں کا کیس دستاویزات پر مبنی ایک کیس ہے، الیکشن کمیشن نے اوریجنل فارمز دینے سے معذرت کی ٹریبونل نے استدعا مان لی، الیکشن ٹریبونل نے سرٹیفائیڈ کاپیاں جمع کروائیں جو ہمیں بھی دی گئیں، الیکشن ٹریبونل تمام فریقین کو نوٹس جاری کر سکتا ہے اور پہلی سماعت پر درخواستیں مسترد بھی نہیں کر سکتا۔؎
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ آر او یا الیکشن کا نہیں مسئلہ جیتنے والے امیدواروں کا ہے انہوں نے فارمز نہیں جمع کروائے، درخواست گزاروں کا کہنا ہے ٹریبونل نے ہمیں سنے بغیر کیس آگے بڑھا دیا ہے، ٹریبونل نے ہماری درخواست پر سب سے پہلے ہم سے ہی فارمز جمع مانگے، ہم نے استدعا کی کیس کو زیادہ دیر تک ملتوی نہ کیا جائے عدالت نے ہماری استدعا مسترد کی اور ان سے ریکارڈ مانگا، جلدی انصاف ملنا قانون کی ضرورت ہے۔
اسی کے ساتھ شعیب شاہین کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 4 جون کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کےٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی تھیں۔
اسی روز اچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔
درخواست گزار طارق فضل چوہدری کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوڈ آف سول پراسیجر (سی پی سی) کے مطابق ٹربیونل الیکشن کمیشن کے اختیارات کے ماتحت ہے، ایک امیدوار نے جیب سے دستاویز نکالی اور اسے ٹربیونل نے مان بھی لیا، میں ٹربیونل کی زبان پر نہیں جاؤں گا قانونی نقطے پر رہوں گا، ہم پیش نہیں ہوئے تو جرمانے شروع کردیے گئے، جو ریمارکس دیے گئے ان پر بھی بات نہیں ہوسکتی، فارم 45 جو پیش کیا گیا اس کو کراس چیک کرنے کے بجائے مان لیا گیا۔
یاد رہے کہ 3 جون کو اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعلان کردہ فاتحین نے وفاقی دارالحکومت کے واحد پول ٹربیونل کے سامنے زیر التوا انتخابی درخواستوں کو ’کسی دوسرے ٹریبونل‘ میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔
یہ پیشرفت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک متنازع آرڈیننس جاری کیے جانے کے بعد سامنے آئی جس کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے طور پر ریٹائرڈ ججوں کی تقرری کے لیےالیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے۔
چونکہ اسلام آباد میں واحد ٹربیونل ہے اس لیے مقدمات کو دارالحکومت سے باہر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔
این اے 46، این اے 47 اور این اے 48 سے کامیاب قرار دیے گئے امیدوار انجم عقیل خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور راجا خرم شہزاد نے اپنی درخواستوں میں نہ صرف ان کے خلاف الیکشن پٹیشن کسی دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ ان کی درخواستوں کے حتمی نتائج آنے تک الیکشن ٹریبونل کے سامنے کارروائی روکنے کی بھی استدعا کی ہے۔
قانونی صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک ہی الیکشن ٹریبونل ہے اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن مقدمات کو اسلام آباد سے باہر کسی ٹربیونل میں منتقل نہیں کر سکتا اور ریٹائرڈ ججوں کو بطور الیکشن ٹربیونل تعینات کرنے کا اختیار دینے والے آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔
درخواست گزاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں ٹربیونل سے انصاف نہیں ملے گا جہاں ان کے مقدمات زیر التوا ہیں۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کا حق انصاف کا سنگ بنیاد ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل 10 اے کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن میں کچھ قانونی خامیاں اور نقائص ہیں جو کہ کافی اہم نوعیت کے ہیں اور انتخابی پٹیشن کو خارج کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم، اس کا کہنا ہے کہ ٹربیونل نے نہ صرف الیکشن پٹیشن کے تمام مدعا علیہان کو طلب کیا بلکہ سماعت کی پہلی ہی تاریخ میں متعلقہ حکام سے الیکشن کا پورا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن کا درخواست گزار بد نیتی کے ساتھانہیں قانونی حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔