رینٹل پاور کیس: ملزمان کی غیر حاضری پر عدالت برہم
احتساب عدالت اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف و دیگر کے خلاف رینٹل پاور کیس کی سماعت کے دوران ملزمان کی غیر حاضری پر عدالت نے برہمی کا اظہار کردیا۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) پراسیکیوٹر خواجہ منظور اور وکیل صفائی ارشد تبریز احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران وکیل ارشدتبریز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میں راجا پرویز اشرف کی جانب سے درخواست استثنیٰ دائر کروں گا، اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ دیگر ملزمان کہاں ہیں؟ نا وکیل نا ملزمان پیش ہوئے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ گواہ پیش ہوا ہے تو ملزمان یا وکیل کو بھی پیش ہونا چاہیے، غیر حاضر ملزمان کی ضمانتیں خارج کردوں گا، جیل میں ڈال دوں گا، ملزمان کے وکلا کے آنے کا تھوڑا سا انتظار کرلیتے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے ملزمان کی لسٹ طلب کرتے ہوئے سماعت میں کچھ دیر تک وقفہ کردیا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر 2 غیر حاضر ہونے والے ملزمان عدالت کے روبرو پیش ہوگئے، احتساب عدالت میں ریفرنس میں ایک گواہ کا بیان بھی قلمبند کرلیا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔
پس منظر
واضح رہے کہ راجا پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان پر قومی خزانے کو 75 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ رقم ٹھیکیدار کو پروسیسنگ فیس کے طور پر ادا کی گئی تھی یہاں تک کہ اس منصوبے کے لیے مشینری اور آلات کو منتقل تک نہیں کیا گیا تھا۔
یہ بات یاد رہے کہ سندھ کے علاقے نوڈیرو میں قائم رینٹل پاور پروجیکٹ کا معاہدہ 4 مارچ 2010 کو کیا گیا تھا۔
راجا پرویز اشرف جو اس وقت وفاقی وزیر پانی و بجلی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، انہوں نے اس منصوبے کی منظوری دیت تھی جسے بعد ازاں نیب تحقیقات میں ’ناقابل عمل اور غیر مطلوب‘ قرار دیا گیا تھا۔
وزارت پانی و بجلی نے اس منصوبے کی مجموعی لاگت 4 کروڑ 77 لاکھ 60 ہزار ڈالر بتائی تھی۔
واضح رہے کہ نیب نے 2013 میں نوڈیرو۔ ٹو ریفرنس دائر کیا تھا، ریفرنس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ راجا پرویز اشرف اور پیپکو عہدیداروں نے گڈو پاور پلانٹ سے مشینری کو نوڈیرو ٹو میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور انہوں نے قومی خزانے سے 75 لاکھ روپے سامان کو نئی سائٹ پر منتقل ہونے سے قبل ہی پروسیسنگ فیس کے طور پر ادا کیے تھے۔
آر پی پی اسکیم میں 9 اداروں پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے منصوبوں کو چلانے کے لیے حکومت کی طرف سے موبلائزیشن ایڈوانس کے طور پر 22 ارب روپے سے زیادہ وصول کیے تاہم ان میں سے بیشتر نے اپنے پلانٹ نہیں لگائے اور ان میں سے کچھ نے تاخیر سے کچھ پلانٹس لگائے تھے۔
راجا پرویز اشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے 2008 میں وفاقی وزیر پانی و بجلی کی حیثیت سے آر پی پی معاہدے میں کک بیکس اور کمیشن وصول کیا تھا۔
یہ مقدمات گڈو، نوڈیرو، سمندری، کارکے، گلف، ریشماں اور ستیانہ آر پی پیز سے متعلق ہیں۔