عمران خان کا چیف جسٹس کو خط، پی ٹی آئی کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ
اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر ملک میں رونما ہونے والے واقعات کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے تحریک انصاف کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے خط میں سابق وزیراعظم نے چیف جسٹس پر زور دیا کہ وہ نیب کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو توشہ خانہ کیس میں کلین چٹ دینے کا نوٹس لیں، بہاولنگر واقعہ پر غور کریں، ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر کارروائی کریں، 9 مئی کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی پٹیشن کی سماعت کریں، 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کمشنر راولپنڈی کے بیان کے بارے میں تحقیقات کرائیں اور اس امر پر بھی غور کریں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کس طرح مخصوص نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
ملک کے ان سات اہم مسائل کی جانب چیف جسٹس کی توجہ مبذول کراتے ہوئے پی ٹی آئی کے بانی نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے، ان کی زیر نگرانی پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی پستیوں کی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اس کی وجہ سے جنگل کے قانون کا ابھر کر سامنے آنا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہماری اعلیٰ عدلیہ آئین کے نگہبان کی حیثیت سے بامعنی مداخلت نہیں کرتی، اور اگر مذکورہ صورتحال برقرار رہتی تو یہ دنیا کے کسی بھی مہذب نظام کے لیے مہلک ہوگا۔
انہوں نے سات اہم مسائل میں سے سب سے پہلے چیف جسٹس کی توجہ کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے تین بار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اچانک بری کرنے کے فیصلے کی جانب مبذول کرائی اور کہا کہ اس کیس کی برسوں پیروی کی گئی لیکن اب نواز شریف کو رہا کردیا گیا، انہوں نے چیئرمین نیب نذیر احمد بٹ کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔
بہاولنگر واقعہ
عمران خان نے چیف جسٹس پر زور دیا ہے کہ وہ بہاولنگر واقعے پر غور کریں، پچھلے چند ماہ کے دوران پولیس نے نہتے شہریوں کے گھروں پر چھاپے، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرکے مہذب معاشرے کی ہر ایک لائن کو عبور کیا، ان کمزور مردوں اور عورتوں کو بچانے کے لیے کوئی نہیں آیا اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہماری عدلیہ اس معاملے میں مداخلت کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی۔
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی خواتین سے ناروا سلوک کا ذکرتے ہوئے عمران خان نے خط میں کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی وقار اور گھر کی چادر و چار دیواری کے بنیادی حقوق صرف بندوق کے زور پر نافذ کیے جانے کے لیے رہ گئے ہیں یا عدلیہ ان کو ہر سطح پر نافذ کرنے کے لیے اختیار رکھتی ہے؟
خط میں لکھا گیا کہ ہمارے آئین میں ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان کھینچی گئی لکیریں دھندلی ہو کر اپنا وجود کھو رہی ہیں اور اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اسے روکنا ہو گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کا خط
تیسرے نکتے میں عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان نے زور دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے لکھے گئے خطوط پر ایکشن لیں جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندوں سمیت ایگزیکٹو کے اراکین کی جانب سے بلیک میل، ہراساں کیے جانے اور جبر کا نشانہ بنانے کی شکایت کی گئی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اس سے زیادہ ستم ظریفی نہیں ہو سکتی کہ آج کے دور میں جن لوگوں کو شہریوں کو انصاف فراہم کرنا ہے، وہ جو دوسروں کو انصاف فراہم کرنے کے پابند ہیں، وہ خود انصاف کے خواہاں ہیں، آج تک سپریم کورٹ نے اس موضوع پر فیصلہ کن کارروائی نہیں کی، ججوں کی اس ناکامی سے نظام انصاف پر لوگوں کا اعتماد مزید مجروح ہو گا۔
9 مئی واقعات کی شفاف تحقیقات
خط میں انہوں نے مزید کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں قید اور مقدمے کا سامنا کرنے والے 90 فیصد لوگ کسی بھی طرح کے تشدد میں ملوث نہیں، تاہم ریاست ان تمام مقدمات میں جج، جیوری اور جلاد کے طور پر کام کر رہی ہے، 25 مئی 2023 سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن زیر التوا ہے کہ جس میں 9مئی کے واقعات کی شفاف انکوائری اور تشدد کو ہوا دینے والوں کے حوالے سے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے اور انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کیس کو ترجیحی بنیادوں پر طے کیا جانا چاہیے اور اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
کمشنر راولپنڈی کہاں گئے؟
اس سلسلے میں سابق وزیراعظم نے پانچواں نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کے حوالے سے کمشنر راولپنڈی ڈویژن کی 17 فروری 2024 کو چونکا دینے والی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا، پی ٹی آئی کے بانی نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ جب کشمنر راولپنڈی نے یہ بات کی کہ تو وہ کس کی تحویل میں تھے اور اب وہ عوامی منظرنامے سے کہاں غائب ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔
انتخابات میں دھاندلی
اس سلسلے میں چھٹا نکتہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا، ان کا کہنا تھا کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات منصفانہ اور قانون کے مطابق نہیں کرائے گئے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں درخواستیں دو ماہ سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں جن میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور استدعا کی کہ ان تمام درخواستوں کو ترجیحی بنیادوں پر سماعت کے لیے مقرر کر کے فیصلہ کیا جائے گا۔
مخصوص نشستیں
آخر میں، انہوں نے چیف جسٹس کی توجہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کی جانب مبذول کرائی، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں زیر التوا درخواستوں کی بھی ترجیحی بنیادوں پر سماعت کی جانی چاہیے، مذکورہ صورتحال میں سپریم کورٹ اور آپ کی جانب سے اگر اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کیا گیا تو ملک کو پہلے ہی جس آئینی بحران کا سامنا ہے وہ مزید شدت اختیار کر جائے گا اور ملک کو کھائی میں دھکیل دے گا۔
حیران کن طور پر خط میں عمران خان نے چیف جسٹس کو اس ریفرنس کی بھی یاد دہانی کرائی جو انہیں چند سال قبل سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے بھیجا گیا تھا اور انہیں اس وقت ریاست کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا تھا جب عمران خان خود وزیراعظم کے منصب پر فائز تھے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ آبادی کی اکثریت کو ریاست کے غیض و غضب کا سامنا ہے لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ آپ یہ ثابت کریں کہ آیا آئین کی بالادستی کا آپ کا اعلان حقیقی ہے یا یہ اعلان محض کھوکھلی بیان بازی تھی۔