34 کمپنیوں نے الیکٹرک گاڑیاں بنانے کیلئے لائسنس حاصل کر لیے
انِجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) نے موٹرسائیکل اور رکشہ بنانے والی 34 مینوفیکچررز کو 2025-2020 کی الیکٹرک وہیکلز پالیسی کے تحت لائسنز جاری کردیے، جس کا مقصد روایتی طور پر ایندھن پر چلنے والی گاڑیوں سے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کی طرف منتقل ہونا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’پاکستان الیکٹرک وہیکل مارکیٹ: چیلنجز، مواقعے اور 2023 ایجنڈا‘ کے موضوع پر سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) میں منعقدہ ویبینار میں گفتگو کرتے ہوئے ای ڈی بی کے سینئر عہدیدار عاصم ایاز نے بتایا کہ نجی کمپنیاں الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) بنانے کے لیے میدان میں آ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صارفین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ فنانسنگ کا ہے کیونکہ مہنگی بیٹریوں کی وجہ سے ای ویز روایتی گاڑیوں سے مہنگی ہیں، مزید کہنا تھا کہ وزارتِ صنعت و پیداوار نے ہر پیٹرول اسٹیشن پر ایک ای وی چارجنگ کی سہولت دینے کی تجویز دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت نے قومی ای وی پالیسی کا ملائیشیا میں نافذ پالیسی سے موازنہ کیا، جس سے قیمتوں کے بہتر ہونے کا اندازہ ہوا، مگر ہمیں فنڈنگ کے ذرائع و وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔
عاصم ایاز کا کہنا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے وزارت، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) اور دیگر صنعتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔
لمز کے پروفیسر ڈاکٹر ارشد نے حاضرین کو بتایا کہ ای ویز کے لیے دنیا بھر میں کثیر رقم موجود ہے اور حکومت کو اس مقصد کے لیے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک پر انحصار کرنا نہیں پڑے گا، ایسا اس لیے ہے کہ عالمی برادری ای ویز کے ذریعے سے کاربن کی اخراج میں کمی چاہتی ہے، نا کہ معاشی ترقی کے لیے۔
ڈاکٹر ارشد نے کہا کہ پاکستان ای ویز ٹیکنالوجی پر منتقلی کے عمل کو گرین ہائوس گیس (جی ایچ جی) کے اخراج سے متعلق قرار دے کر اور اس مقصد سے خود کو جوڑ کر اس نوعیت کی رقم کا حصول ممکن بنا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماحولیات کے حوالے سے عالمی فنانسنگ مسابقت کے ذریعے سے ہوسکتی ہے جس سے صرف عمدہ منصوبہ بندی والے، بہتر منصوبوں کو تقویت ملے۔ جس قدر تیزی سے ہم آگے بڑھیں گے، اتنا ہی جلد برقی گاڑیوں کا حصول ممکن بناسکیں گے۔
مدحت وارث نے شرکا کو بتایا کہ شیل گلوبل کے پاس ایک ہزار چارجنگ اسٹیشنز کے ساتھ ای ویز کا دنیا کا سب سے بڑا انتظام موجود ہے، اور یہ کہ کمپنی اپنے ریپڈ چارجرز کی پاکستان میں آزمائش بھی کرچکی ہے۔
مدحت وارث نے شیل کے چین میں واقع سب سے بڑے چارجنگ اسٹیشن پر بھی بات کی، جس میں 250 آؤٹ لیٹس کی سہولت موجود ہے۔
شیل کی نمائندہ نے مزید کہا کہ کمپنی پاکستان میں ای وی چارجنگ کے حوالے سے بنیادی کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے حصول کےلیے، کے الیکٹرک سے شراکت اہمیت کی حامل ہے۔
ڈاکٹر ارشد نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ بیٹری سے متعلق ٹیکنالوجی ابھی ارتقا کے مراحل میں ہے، اور اس حوالے سے تحقیق اور کام کے علاوہ سرمائے اور تکنیکی ذرائع کے فروغ پر زور دیا۔
دیوان موٹرز بی ایم ڈبلیو کے احمد سجیل نے انکشاف کیا کہ جاپان میں گاڑیاں بنانے والے ای ویز کی راہ میں مزاحم ہیں، لیکن موجودہ حالات میں مزاحمت بے سود ہے کیونکہ گاڑیاں بنانے کی عالمی صنعت ای ویز پر منتقلی کی طرف قدم بڑھاچکی ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ وزارتِ ماحولیات ای ویز کے حوالے سے نہایت دوستانہ مؤقف رکھتی ہے، لیکن پاکستان کو اس شعبے میں مناسب کام اور مزید تاخیر سے بچنے کے لیے طویل المدتی فریم ورک درکار ہے۔
سجیل نے یہ بھی کہا کہ صرف برقی گاڑیاں حل نہیں، ان کا انفرااسٹرکچر بھی اہم ہے، اور ان کو مقامی طور پر بنانا ضروری ہے کیونکہ پاکستان سیلیکا اور دیگر خام معدنیات سے بھرپور ہے۔
ویبینار سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عاضر انور خان نے کہا کہ 2 اور 3 وہیلرز پر انحصار کرنے والے متوسط طبقے پر ای ویز کا مثبت اثر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں آلودگی کی وجہ سے فضائی معیار اور ماحولیاتی مسائل عروج پر ہیں، جبکہ درآمدی 60 فیصد تیل کا استعمال موٹرسائیکلوں میں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان فوری طور پر روایتی ایندھن والی گاڑیوں سے ای ویز پر منتقلی کا ارادہ رکھتا ہے اور اس حوالے سے منظر نامہ موافق ہے۔