پاکستان

صورتحال تشویشناک ہے، تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، نیئر بخاری

ججوں نے تحفظات کا اظہار اور مداخلت کی بات کی ہے، آئینی حقوق کا عدلیہ کے سوا کوئی تحفظ نہیں کر سکتا، رہنما پیپلز پارٹی

سینئر قانون دان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے مداخلت کے حوالے سے خط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال بہت تشویشناک ہے اور ملک کے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، یہ جمہوریت اور آزاد عدلیہ دونوں کے لیے بہت ضروری ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں گفتگو کرتے ہوئے نیئر بخاری نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے اور سویلین کا ٹرائل آرمی کورٹس میں نہیں ہونا چاہیے، اس آئین میں ترمیم کیوں نہیں کرتے جس کی وجہ سے شہریوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال بڑی تشویشناک ہے اور عدلیہ کی آزادی جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ موجودہ صورتحال پر عدلیہ کے ججوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور مداخلت کی بات کی ہے، دوسری جانب ایگزیکٹو اتھارٹی اور ان کے نیچے کام کرنے والوں کی مداخلت کا ذکر کافی تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئینی حقوق کا عدلیہ کے سوا کوئی تحفظ نہیں کر سکتا کیونکہ جب بھی کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو عدلیہ ایسے میں چیزوں کو دیکھتی ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے حکمت عملی مرتب کی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں اگر قانون کی حکمرانی برقرار رکھنی ہے، اگر ہم سمجھتے ہیں کہ آئین سب سے بڑا قانون ہے تو اس قانون پر عملدرآمد کون کرے گا، ججز بھی نہی کروا سکیں گے، ایگزیکٹو بھی نہیں کر سکے گا، پارلیمنٹ بھی نہ کر سکے تو اس آئین سے قوم اور ملک کو کیا فائدہ حاصل ہو گا۔

نیئر بخاری نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ملک کے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، یہ جمہوریت اور آزاد دونوں کے لیے بہت ضروری ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط چیف جسٹس سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو لکھنا چاہیے تھا جو اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کی سفارشات کرتی ہے اور ساتھ میں یہ خط ججز کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو لکھنا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ججز کی تعیناتی کے لیے سپریم جوڈیشل کمیشن نام بھیجتا ہے اور جوڈیشل کمیشن کو بھیجے گئے ناموں کی منظوری پارلیمانی کمیٹی دیتی ہے۔