پاکستان

وفاقی حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان

کابینہ اجلاس میں کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جبکہ غیر جانبدار شخصیت انکوائری کمیشن کی سربراہی کرے گی، اعظم نذیر تارڑ

وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں اٹارنی جنرل انور منصور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’گزشتہ روز معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ میٹنگ کی، چیف جسٹس نے خواہش ظاہر کی معاملے پر وزیر اعظم سے بھی مشاورت کی جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے خواہش کا اظہار کیا، وزیراعظم نے فوری طور پر ملاقات کے لیے رضامندی ظاہر کی، آج وزیراعظم کی چیف جسٹس اور سینئر ججز سے ملاقات ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور ملاقات بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملاقات میں خط سمیت ٹیکس اور دیگر معاملات پر بات چیت ہوئی، جو خط سامنے آیا اس کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوم تھی، ہم سمجھتے ہیں یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، سب سے پہلے خط کی چھان بین ضروری ہے، جس کے لیے حکومت نے خط کے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے بھی تحقیقاتی کمیشن بنانے پر اتفاق کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا، اور یقین دہانی کروائی کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔‘

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ماضی میں بھی اس طرح کی آوازیں آتی رہی ہیں، وزیراعظم اور ان کا خاندان خود زیر عتاب رہا ہے، ایسا واقعہ ہے تو مستقبل میں اس کی روک تھام ہوگی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وفاقی کابینہ کا اجلاس کل ہوگا، وزیراعظم کل خط کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے، کابینہ اجلاس میں کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جبکہ غیر جانبدار شخصیت انکوائری کمیشن کی سربراہی کرے گی۔‘

وزیر قانون نے کہا کہ کسی بھی ادارے کی معاملے میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اچھی ساکھ والے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کرائی جائےگی، جبکہ انکوائری کے ٹی او آرز میں اس خط اور ماضی کے معاملات بھی شامل ہوں گے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ عدلیہ پر چھوڑتے ہیں کہ ججز کا معاملہ مس کنڈکٹ ہے یا نہیں۔

ججز کے خط کا معاملہ

واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

خط کے معاملے پر غور کے لیے گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا۔

فل کورٹ اجلاس 2 گھنٹے تک جاری رہا تھا جب کہ وقت کی کمی کے باعث فل کورٹ اجلاس میں ججز کے خط کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا تھا، اجلاس کے دوران تمام ججز نے خط پر اپنی رائے کا اظہار کیا، اس سلسلے میں اجلاس آج بھی فل کورٹ اجلاس جاری رہے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر ہوچکی ہے۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے با اختیار کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کروانے استدعا کی گئی ہے۔