’کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟‘ سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟
ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اپیلوں پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر و دیگر عدالت میں پیشہوئے جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم حامد علی شاہ، ذولفقار نقوی و دیگر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی اور پارٹی قیادت بھی کمرہ عدالت میں موجود ہے۔
سماعت کے آغاز میں جسٹس عامر فاروق نے حامد علی سے مکالمہ کیا کہ شاہ صاحب آپ گئے نہیں، ہم تو سلمان صاحب کو سنتے رہے، اس پر بریرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سر میں بھی تھک گیا ہوں، آج کل میری مصروفیات زیادہ ہیں، کوئی ایک دن میرے دلائل کے لیے مختص کریں۔
بعد ازاں سلمان صفدر نے کل تک حتمی دلائل کے لیے وقت مانگ لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ جمعے کو نہیں پیر کو ایک بجے ہم آپ کو سن لیتے ہیں۔
سلمان صفدر نے اپنی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں آج اس کیس کے سب سے اہم گواہ اسد مجید کا بیان پڑھنا چاہوں گا، پھر وکیل سلمان صفدر نے امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔
اسد مجید کے بیان کے مطابق کورونا کے دوران مان کی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو سے آفیشل لنچ پر ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں وزارت خارجہ کے اور بھی اہم افسران شامل تھے، اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے کمیونیکیشن حکومت کے ساتھ شئیر کرنے کا کہا گیا تھا، امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری کی زبان پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بریف کیا، ڈونلڈ کے بیان پر انہوں نے حکومت سے ڈیمارش کرنے کا کہا تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اچھا سائفر کے مندرجات اسد مجید نے بھی نہیں بتائے؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ مستقبل کے معاملات خراب ہوسکتے ہیں، یہ جملہ پڑھنا چاہوں گا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مؤکل سیاسی شخصیت ہے، کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟ ہمیں تو ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ انفارمیشن تھی ہی کیا؟
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ آپ کے سوال پر میرے خیال میں شاہ صاحب جواب دیں گے، ڈیفنس کونسلز کی جانب سے جو جرح کی گئی ہے، اس کا کچھ حصہ پڑھنا لازمی ہے، اسد مجید امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے، انہوں نے سائفر بھیجا، اسد مجید نے بتایا کہ وہ ڈونلڈ لو کے ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے، اسد مجید نے اپنے بیان میں یہ نہیں کہا کہ کیا بات تھی جس کی بنیاد پر سائفر بھیجنا پڑا، اسد مجید نے اپنے بیان میں کہا کہ سائفر میں سازش کی کوئی بات نہیں لکھی، پراسیکیوشن کا کیس کسی موقع پر بھی صفحہ مثل پر نہیں آیا، اسد مجید بھی نہیں لائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسد مجید کہتے ہیں کہ انہوں نے قومی سلامتی میٹنگ میں کہا کہ ڈی مارش کیا جائے، ٹرائل جج نے لکھا کہ سائفر ایپی سوڈ (episode) معاملے سے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہت نقصان پہنچا۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ سائفر ایپی سوڈ کا کیا مطلب ہے؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جج کو اس متعلق مزید مخصوص انداز میں لکھنا چاہیے تھا، اسد مجید نے بھی یہ نہیں بتایا کہ اس نے بھیجا کیا ہے؟
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ ٹرائل جج نے لکھا کہ اس سائفر ایپی سوڈ سے مستقبل کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے عوام کو اعتماد میں لے کر اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، اسد مجید کہتے ہیں میں نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ میں کہا ڈونلوڈ لو کی بات پر مضبوط ڈیمارش ہونا چاہیے ، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں کہا گیا مستقبل میں تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ ڈونلڈ لو سے جو کمیونیکیشن ہوئی انہوں نے وہی بھیجی نا؟ وکیل نے جواب دیا کہ جن تینوں گواہ کا بیان میں پڑھوں گا وہ میرے حق میں ہے اسی لیے مجھے ان پر جرح کی ضرورت نہیں، سرکار کا کیس ان کے ہی دو گواہ افسران خود ختم کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈپلومیٹس کو ہم بطور گواہ بلا سکتے ہیں؟ وکیل سلمان سفدر نے بتایا کہ ویانا کنونشن میں ڈپلومیٹس کی گواہی سے متعلق چیزیں واضح ہے،
وکیل نے کہا کہ اسد مجید نے بیان میں بتایا کہ انجلینا مرکل نے انہیں بذریعہ واٹس ایپ کہا تھا کہ کچھ دستاویزات دینا چاہتی ہوں، وکیل نے بات جاری رکھتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ انجلینا مرکل نے کہا کہ پاکستانی اندرونی معاملات میں مداخلت کے کچھ شواہد دینا چاہتی ہو، انجلینا مرکل نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم کے لیے کچھ دستاویزات دینے ہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ وزیر خارجہ نے تو یہاں بتایا کہ ہم سائفر دستاویز نہیں دے سکتے، وکیل نے سوال کیا کہ اس معاملے میں نہ زبانی شواہد اور نہ ہی کتابی شواہد آئے تو کیس کیسے چلا ؟
سلمان صفدر نے بتایا کہ اسد مجید نے کہا کہ ڈائریکٹر فارن سروس افسر نے مجھے جو دستاویز دیے تھے اسی پر کابینہ کو بریف کیا۔
اس موقع پر وکیل سلمان صفدر نے سوال اٹھایا کہ دستاویز نہیں مگر ڈیمارش کیا گیا؟ پراسیکوشن بتائے گی کہ کیسے کیا ؟
اس پر گواہ وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ میں نے واٹس ایپ میسج کا بھی پلان میسج تیار کرلیا۔
وکیل نے کہا کہ اسد مجید سمیت تمام متعلقہ لوگوں نے ڈیمارش کرنے کا کہا تھا۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسد مجید وہ گواہ تھے جو سائفر کے متن سے آگاہ تھے، وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ جی بالکل وہ آگاہ تھے، انہوں نے ہی ڈیمارش کرنے کی سفارش کی، دفتر خارجہ کے لیے یہ ٹرائل بہت مہنگا رہا ہے، ایڈیشنل سیکریٹری امریکا فیصل نیاز ترمذی متحدہ عرب امارات سے دو تین دفعہ آئے مگر امریکی ناظم الامور انجیلا مرکل کو نا بیان کے لیے لایا گیا نا ان کا واٹس ایپ میسج ریکارڈ پر لایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ ڈسکس کر رہے ہیں کہ کیا سفیر کو بلایا جا سکتا ہے ، سلمان صفدر نے بتایا کہ فیصل نیاز ترمذی نے امریکی ناظم الامور کے میسج کے حوالے سے بتایا کہ کاغذ لہرایا گیا، ڈونلڈ اور امریکی ناظم الامور کے کہنے پر سابق وزیر اعظم کو جیل میں ڈال دیا یہ ان کا کیس ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری نے بیان دیا کہ سائفر معاملے پر امریکا نے میسج بھیجا، کیا ایسا ہوا کہ امریکی ناظم الامور کے کہنے پر سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو جیل میں ڈال دو؟ مجھے تو پراسیکیوشن کا یہی کیس سمجھ آیا ہے کہ ایسا کر دو تو وہ خوش ہو جائیں گے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ پاکستان میں اگر کوئی کہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن بنا دو تو اسکو جیل میں ڈال دیں گے؟
وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ فیصل ترمذی کو جو میسج آیا وہ عدالتی ریکارڈ پر تو لایا جاتا لیکن نہیں لایا گی، سابق وزیر خارجہ کی تقریر ایک سیاسی تقریر تھی، مثالی طور پر تو اعظم خان اور اسد مجید اسٹار گواہ ہو سکتے تھے۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کی ابھی اسد مجید نے تو کچھ نہیں کہا کہ وہ اسٹار گواہ بن سکتا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ اعظم خان لاپتا ہوئے، مقدمہ درج ہوا تو واپس آئے اور بیان دیا، اعظم خان کے 164 کے بیان اور کورٹ کے بیان میں بہت زیادہ فرق ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ 164 کے بیان اور کورٹ کے سامنے اعظم خان کے بیان میں کیا فرق ہے ؟ وکیل نے بتایا کہ اعظم خان کہہ رہے ہیں یہ ایک پیپر تھا جس کو لہرایا گیا ۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ آپ بتائیں بانی پی ٹی آئی نے جلسے میں کیا لہرایا تھا ؟ وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ یہ تو پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ کیا لہرایا گیا؟
بعد ازاں چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 2 اپریل کو دن ایک بجے سے شام 4 بجے تک ہم دلائل سنیں گے۔
عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی اپیل پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) صرف سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سائفر کی کاپی واپس نہ کرنے پر تحقیقات کیوں کر رہی ہے جبکہ سائفر کی کاپی وصول کرنے والے دیگر فریقین کو ایسا ہی کرنے کے باوجود نظرانداز کیا گیا۔
قبل ازیں 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعتکے دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کسی کو پتا نہیں کہ سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں کہ دشمن کو فائدہ ہو گیا۔
واضح رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پر سماعت 25 مارچ تک ملتوی کر دی گئی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا تھا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
اس سے ایک روز قبل (19 مارچ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔
یاد رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔