پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جائزہ مذاکرات میں ایک دن کی توسیع
3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے حتمی جائزے کے دوران عالمی مالیاتی فنڈز(آئی ایم ایف) کے وفد اور پاکستانی حکام نے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات میں ایک دن کی توسیع کردی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری شیڈول میں بتایا گیا تھا کہ یہ مذاکرات 18 مارچ کو مکمل ہونے تھے تاہم باخبر ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریقوں کی رمضان کی وجہ سے کام کے اوقات میں کمی کے باعث سیکٹر وار ملاقاتیں متاثر ہوئیں جس کی وجہ سے ایجنڈے کو منگل تک ملتوی کرنا پڑا۔
حتمی ریپ اپ میٹنگ، جس کی روایتی طور پر وزیر خزانہ نمائندگی کرتے ہیں، اب منگل کو ہو گی اور اسی دن وزیر اور مرکزی بینک کے گورنر کی جانب سے لیٹر آف انٹینٹ اور اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کو حتمی شکل دی جائے گی، ایک باخبر ذرائع نے بتایا کہ دستاویزات پر زیادہ تر کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اپریل کے پہلے حصے میں تقریباً 1.1 ارب ڈالر کی حتمی قسط کی تقسیم کی منظوری کے لیے فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پاکستان کا مدعا پیش کرنے کے لیے دونوں فریق بروقت رابطے میں رہیں گے، گزشتہ سال جولائی میں دستخط کیے گئے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے میں سے پاکستان پہلے ہی 1.9 ارب ڈالر حاصل کر چکا ہے۔
دونوں فریقوں نے پیر کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے مشورے کے مطابق انسداد منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور دہشت گردی کی مالی معاونت (سی ایف ٹی) کو بہترین بین الاقوامی طریقوں کے مطابق اپ گریڈ کرنے پر تفصیلی بات چیت کی، ان اجلاسوں میں، جن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، اسٹیٹ بینک پاکستان (ایس بی پی)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی، سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں کی دستاویزات اور بینکوں کے ڈیٹا تک رسائی سے متعلق رازداری کے تحفظات کا بھی احاطہ کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بینک ایف بی آر کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے کے پابند ہوں گے لیکن اس بات کے لیے معیاری پروٹوکول ہوں گے کہ کون، کس حد تک، اور کس فارمیٹ میں ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے تاکہ اس کو عوام کے سامنے لائے جانے سے بچا جا سکے، مخصوص ’مقدس دفاتر‘ سے متعلق کچھ رعایتیں بھی ہوں گی، لیکن یہ چھوٹ چند حد تک محدود ہوں گی۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ بجلی اور گیس کے شعبے کے گردشی قرضے کو مکمل منجمد کرنے کے حوالے سے تفصیلی منصوبہ بھی شیئر کیا ہے، بجلی کے بنیادی ٹیرف میں یکم جولائی 2024 سے اس انداز میں نظر ثانی کی جائے گی کہ صارفین کو متوقع ماہانہ ایندھن کے اخراجات اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کا سامنا کرنا پڑے گا، اور بقایا گردشی قرضے کو کم کرنا شروع کر دیا جائے گا، جو کہ 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے، جس میں 2 ہزار 300 ارب روپے کے تازہ اسٹاک اور پاور ہولڈنگ کمپنی میں 700 ارب روپے سے زائد رقم شامل ہے۔
اسی طرح، یکم جولائی 2024 سے کنزیومر اینڈ ٹیرف کو بھی اوپر کی طرف بڑھایا جائے گا جس کے لیے ریگولیٹری کا عمل مقررہ تاریخ سے پہلے مکمل کر لیا جائے گا، گیس اور پاور دونوں شعبوں میں ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے شیڈول پر سختی سے عمل کیا جائے گا، اور یہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے ’لمبے اور بڑے‘ پروگرام کا حصہ بھی بن جائے گا جسے 15-20 اپریل کو ہونے والی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ملاقاتوں کی سائیڈلائنز پر حتمی شکل دی جائے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت پہلے ہی فنڈ مشن کے ساتھ ایف بی آر کے ڈیجیٹلائزیشن پروگرام کا اشتراک کر چکی ہے اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کر چکی ہے۔
اس مقصد اور ریٹیل اور ہول سیل دونوں شعبوں کی مؤثر ریگولیشن کے لیے صوبوں کے ساتھ ہم آہنگی کرتے ہوئے متعلقہ قانون سازی اور ماتحت قانون سازی کو آئندہ وفاقی بجٹ میں شامل کیا جائے گا، ریٹیلرز کو بھی لازمی رجسٹریشن کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ، رئیل اسٹیٹ ٹرانزیکشنز میں نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا اور تمام رئیل اسٹیٹ سوسائٹیز اور ہاؤسنگ اتھارٹیز کو متعلقہ ریونیو اتھارٹیز کے ساتھ رجسٹر کیا جائے گا، ان کے لین دین کی نگرانی ریٹیل سیکٹر کے پوائنٹس آف سیل نیٹ ورک اور بینکنگ آلات کے ذریعے کی جائے گی۔
ایک متعلقہ اجلاس میں پاور ڈویژن کا وزارتی قلمدان سنبھالنے والے وزیر سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا کہ گردشی قرضہ تقریباً 700 ارب سے 800 ارب سالانہ اضافے کے ساتھ بڑھ کر 3 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان کے بیان میں کہا گیا کہ وہ غیر متزلزل عزم کے ساتھ گردشی قرضوں پر قابو پانے اور پاور سیکٹر کی ترقی میں درپیش رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔