ڈالر مزید سستا ہونے پر حکومت، برآمدکنندگان کو شدید تحفظات
انٹربینک مارکیٹ میں کرنسی ڈیلرز اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی کی خواہاں نہیں ہے کیونکہ اس سے درآمدات اور برآمدات دونوں متاثر ہوتی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق روپے کے مقابلے میں ڈالر 5 ماہ کی کم ترین سطح پر آ چکا ہے جس سے برآمد کنندگان کو شدید تحفظات ہیں، ساتھ ہی حکومت کو خدشہ ہے کہ سستا ڈالر درآمدات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے جوکہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔
بینکنگ مارکیٹ میں کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے کہا کہ اِن فلوز بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان یقین دلاتا ہے کہ بینکنگ مارکیٹ میں ڈالر کی کوئی اضافی لیکویڈیٹی نہیں ہے، ڈالر کی زیادہ مانگ کا مطلب ہے کہ ڈالر کی قدر میں کمی نہیں ہورہی اور برآمد کنندگان کے لیے روپیہ سستا رہتا ہے۔
ڈالر روپے کے مقابلے میں 5 ماہ کی کم ترین سطح پر آنے کے بعد جمعہ کو 278.77 روپے تک آگیا، جس سے برآمد کنندگان میں خوف پھیل گیا، بااختیار حلقوں میں برآمدکنندان کی مضبوط لابی ہے تاہم اُن کے سستی توانائی کے مطالبے کو عالمی مالیاتی بینک (آئی ایم ایف) نے مسترد کر دیا ہے۔
نگراں حکومت نے برآمد کنندگان کو 9 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کرنے کی تجویز پیش کی تھی جو کہ موجودہ 14 سینٹ فی یونٹ کی شرح سے کم ہے تاہم آئی ایم ایف نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حکومتیں آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرنے کی پابند ہیں کیونکہ انہیں معیشت کو چلانے کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہے۔
ٹیکسٹائل کی تیار شدہ مصنوعات کے ایک برآمد کنندہ عامر عزیز نے کہا کہ 22 فیصد کی بلند ترین شرح سود کی وجہ سے ہم پہلے ہی دباؤ میں ہیں، جس سے کاروبار کرنے کی لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہے۔
انہوں نے بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کے ساتھ 22 فیصد شرح سود کا حوالہ دیا جس نے برآمد کنندگان کو عالمی منڈیوں میں مقابلہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
انہوں نے کہا کہ پیداوار کی بھاری لاگت کا اثر نمایاں ہوگا اور اگلے 12 مہینوں میں اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے کیونکہ ابھی ہم پچھلے آرڈرز پورے کر رہے ہیں۔
نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں شرح سود میں بتدریج کمی کا عندیہ دیا ہے، بلند شرح سود نے اقتصادی ترقی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور مالی سال 2024 میں بھی خراب کارکردگی کا خدشہ ہے، جس میں شرح نمو بمشکل 2 فیصد ہی رہے گی۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے کل پیر کو مانیٹری پالیسی کا اعلان ہونے والا ہے، مالیاتی مارکیٹ شرح سود کے بارے میں قیاس آرائیوں سے بھری پڑی ہے لیکن متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار مارچ میں مہنگائی کی شرح پر ہے، جو رمضان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھ سکتی ہے۔
عاطف احمد نے کہا کہ سستا ڈالر درآمدات کو بڑھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں بالآخر تجارتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوگا۔
ملک تجارتی خسارہ کم کرنے میں کامیاب رہا ہے جبکہ 7 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً ایک ارب ڈالر رہا، یہ ایک ایسے ملک کے لیے ایک اہم کامیابی ہے جسے مالی سال 2024 میں قرض کی مد میں 24 ارب ڈالر تک ادائیگی کرنی ہے۔
اگرچہ مستحکم شرح مبادلہ غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن اس نے معیشت کے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد فراہم کیا اور برآمد کنندگان کو ان کی برآمدات کی فروخت میں مدد کی۔
برآمدات کی آمدنی سے بینکنگ مارکیٹ میں ڈالر کی لیکویڈیٹی پیدا ہوئی اور مارکیٹ کو مستحکم رہنے میں مدد ملی۔