سروے: ملک درست سمت میں گامزن ہے، 10 میں سے صرف ایک پاکستانی کی رائے
مارکیٹ ریسرچ کمپنی ’اپسوس‘ کی جانب سے صارفین کے اعتماد کے حوالے سے کیے گئے سروے کے مطابق 10 میں سے صرف ایک پاکستانی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ملک درست سمت میں گامزن ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2024 کی پہلی سہ ماہی کے لیے تازہ ترین ’گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس سروے‘ پاکستان کی پوزیشن میں 5 سال پہلے کے مقابلے میں نمایاں کمی ظاہر کرتا ہے، پاکستان بہتری کے بجائے اس عرصے میں نیچے آگیا اور 5 سالہ پیشِ رفت اور ترقی کھودی۔
اقتصادی چیلنجز برقرار ہیں، جس کی وجہ سے روزمرہ کی خریداریوں اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے حوالے سے عوام میں بڑے پیمانے پر بےچینی پائی جاتی ہے۔
10 میں سے صرف ایک پاکستانی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ملک درست سمت میں گامزن ہے، 98 فیصد افراد گھر یا گاڑی کی خریداری جیسے بڑی خرچے کرنے میں عدم اطمینان کا شکار رہتے ہیں۔
یہ تحقیق مارکیٹ ریسرچ کمپنی ’اپسوس‘ نے کی ہے، جو 70 ممالک میں 20 ہزار محققین کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
سروے کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے ایک ہزار 43 افراد سے انٹرویو کیا گیا، علاوہ ازیں سروے رپورٹ میں دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
اقتصادی اعتبار سے پاکستان کے سفر میں نمایاں اتار چڑھاو نظر آتا ہے، 20-2019 میں کورونا وبا کے دوران ابتدائی طور پر گراوٹ کے بعد 2021 میں بہتری آئی، تاہم بحالی کا یہ عمل قلیل المدتی تھا، جس کے نتیجے میں سیاسی تجربات کی وجہ سے 23-2022 میں گراوٹ ہوئی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی زیرقیادت حکومت کے اختتام پر آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے نے 2023 کی تیسری سہ ماہی میں معیشت نے ’باؤنس بیک‘ کیا اور نگران حکومت نے صورتحال کو مستحکم بنایا، جس کے نتیجے میں ستمبر 2023 کے بعد سے معیشت مثبت رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ موجودہ سہ ماہی کے دوران پاکستان کی عالمی سطح پر پوزیشن سب سے پست رہی، حتیٰ کہ برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے مقابلے میں بھی یہ سب سے پیچھے رہا۔
منفرد چیلنجز اور عالمی بحرانوں (مثلاً کورونا وبا، روس-یوکرین کی جنگ اور مشرقِ وسطیٰ کے ہنگاموں) کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان کے برعکس ان ممالک کی معیشتیں گزشتہ 5 سال کے دوران صارفین کے اعتماد کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔
اِن اعداد و شمار سے 2 اہم سبق ملتے ہیں، پہلا یہ کہ حکومتوں کو اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنے دینا سیاسی استحکام کے لیے بہت ضروری ہے، حکومت میں قبل از وقت تبدیلیاں مسلسل ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، دوسرا یہ کہ سروے میں تاثر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے جوکہ حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت کو معاشی اصلاحات کا ایجنڈا مدنظر رکھتے ہوئے موثر انتظام کے لیے سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ اہداف اور کارکردگی کے کلیدی اشارے (کے پی آئیز) کا تعین کرنا چاہیے، تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ عوام اور سرمایہ کاروں کے درمیان پائیدار اور بہتر اعتماد کو یقینی بنایا جا سکے۔
انٹرویوز پر مبنی سروے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ 10 میں سے صرف ایک پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے، خواتین کے مقابلے میں مرد دگنا زیادہ پُرامید ہیں، اچھی امید کم ہونے کے باوجود گزشتہ برس نگران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اس میں استحکام موجود ہے۔
سروے کے مطابق پاکستانیوں کے لیے تشویشناک مسائل کی فہرست میں معاشی مسائل بدستور سرفہرست ہیں، تاہم گزشتہ سال کی چوتھی سہ ماہی کے بعد مہنگائی کو سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ سمجھنے میں معمولی کمی دیکھی جا سکتی ہے۔
10 میں سے 6 پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک کی معاشی حالت کمزور ہے، پست سماجی معاشی طبقے کے لوگ اور بھی زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔
10 میں سے 3 پاکستانی آنندہ 6 ماہ میں ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں جبکہ 10 میں سے 4 پاکستانی اسی عرصے کے دوران اپنے ذاتی مالی حالات بہتر ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔
10 میں سے صرف ایک پاکستانی نے بچت (سیونگز) اور سرمایہ کاری پر یقین ظاہر کیا، تاہم 98 فیصد پاکستانی گھر یا کار کی خریداری جیسے بڑے خرچے کرنے میں عدم اطمینان کا شکار ہیں۔
10 میں سے 6 پاکستانی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کو ذاتی طور پر جانتے ہیں جو معاشی حالات کی وجہ سے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے، 5 سال پہلے یہ شرح نصف تھی، ملازمت کے تحفظ (جاب سیکیورٹی) کے حوالے سے اعتماد پچھلی سہ ماہی سے بدستور برقرار ہے جس میں اکثریت (88 فیصد) اب بھی کم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔