پاکستان

چیئرمین ارسا کی ’یکطرفہ‘ تعیناتی سے وفاق، صوبوں کے درمیان تناؤ کا خدشہ

یہ تعیناتی متنازع ارسا ترمیمی آرڈیننس 2024 کے تحت کی گئی ہے جسے سابق صدر عارف علوی نے تحفظات کے ساتھ نگران وزیر اعظم کو واپس بھیج دیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک سابق وفاقی سیکرٹری کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا چیئرمین مقرر کر دیا ہے، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ یکطرفہ فیصلہ صوبوں کو وفاق کے خلاف کھڑا کر سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ارسا دراصل 5 رکنی واٹر ریگولیٹر ہے، یہ 5 اراکین چاروں صوبوں اور وفاق کی نمائندگی کرتے ہیں، ارسا کے سابق چیئرمین عبدالحمید مینگل کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

اس فیصلے سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور صدر آصف علی زرداری کی جماعت پیپلزپارٹی کے درمیان دراڑ پیدا ہونے کا بھی امکان ہے کیونکہ اس کے نئے اسٹرکچر سے بظاہر ارسا کی آزاد حیثیت متاثر ہوتی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے سیکریٹری اسد رحمان گیلانی کی جانب سے جاری کردہ ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے وفاقی حکومت کے 22ویں گریڈ کے ریٹائرڈ افسر ظفر محمود کو بطور چیئرمین انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارت آبی وسائل اب اس حوالے سے باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔

ظفر محمود کی تعیناتی متنازع ارسا ترمیمی آرڈیننس 2024 کے تحت کی گئی ہے جسے اُس وقت کے صدر عارف علوی نے تحفظات کے ساتھ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو واپس بھیج دیا تھا، تاہم اُس کے بعد کیا ہوا؟ یہ تاحال ایک معمہ ہے۔

وزارت آبی وسائل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر نے آرڈیننس کا مسودہ واپس کر دیا تھا لیکن یہ صرف ایوان صدر اور وزیر اعظم آفس کو معلوم ہے کہ آیا صدر نے آرڈیننس کو مسترد کیا تھا یا پھر اس پر نظرثانی کی تجویز دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت وزیراعظم (جو اُس وقت انوار الحق کاکڑ تھے) کو مسودہ دوبارہ بھیجنے کا اختیار حاصل تھا جسے اگلے 10 روز گزر جانے کے بعد قانون بن جانا تھا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ یہ بات ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ارسا ترمیمی آرڈیننس 2024 اب (پاکستان کے گزٹ میں) پرنٹ کردیا گیا ہے اور اسے ایک مستقل ایکٹ بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے گا کیونکہ ظاہر ہے آرڈیننس عارضی ہوتا ہے۔

حکومت سندھ نے اقدام کو مسترد کردیا

پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے خبردار کیا یہ اقدام نہ صرف آئینی دفعات کی روشنی میں قابل اعتراض ہے بلکہ وفاق پر بھی اس کے اثرات ہوں گے، حکومت سندھ نے پہلے ہی اس اقدام کو ’غیر قانونی‘ اور ارسا ایکٹ کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ صدر آصف علی زرداری نے مطلوبہ آرڈیننس کو نہ تو دیکھا ہے اور نہ ہی اس پر دستخط کیے ہیں۔

’ڈان‘ کو آرڈیننس کی دستیاب کاپی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بظاہر یہ آرڈیننس ارسا کے موجودہ اختیارات کو ختم کردیتا ہے اور اسے مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) سے لازمی طور پر مطلوب منظوری حاصل نہیں ہے۔

یہ ارسا کے مجموعی اختیارات کو کم کرتا ہے، جس میں 4 صوبائی اور ایک وفاقی رکن شامل ہیں، اب صوبوں کو چیئرمین ارسا کا عہدہ نہیں دیا جائے گا۔

اس وقت چیئرمین ارسا کا عہدہ صوبوں اور وفاق کو حروف تہجی کے حساب سے سالانہ بنیادوں پر دیا جاتا ہے، یہ فرداً فرداً نمائندگی اب وائس چیئرمین کے نئے بنائے گئے عہدے کے لیے ہوگی جو براہ راست مقرر کردہ چیئرمین کا ماتحت ہوگا۔

نیا قانون چیئرمین کو بھاری اختیارات دیتا ہے جو انڈیپینڈنٹ کنسلٹنٹس اور ماہرین کی اپنی ٹیم کی مدد سے آبپاشی کے نظام، پانی کی تقسیم میں صوبوں کا حصہ، چارجز اور فیس وغیرہ عائد کرنے کے لیے اہم فیصلہ سازی کر سکے گا۔

چیئرمین کی غیرموجودگی میں یہ اختیارات چیف انجینئرنگ ایڈوائزر/چیئرمین فیڈرل فلڈ کمیشن (سی اع اے/سی ایف سی سی)کے موجودہ عہدے کی جگہ کسی اور وفاقی حکومت کے عہدیدار کو منتقل ہوجائیں گے جسے ارسا کے چیئرمین یا وفاقی رکن کی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔

ارسا دیگر اراکین کی معاونت بھی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے چیئرمین کی تجویز درکار ہوگی جوکہ وفاقی حکومت کا ملازم ہو گا، وہ 21وں گریڈ یا اس سے اوپر خدمات انجام دے رہا ہوگا یا ریٹائرڈ ہوگا۔

اگر صوبے ارسا کے کسی فیصلے سے ناراض ہوں تو یہ قانون صوبوں کو مشترکہ مفادات کونسل سے اس صورت میں رجوع کرنے سے روکتا ہے، کے بجائے انہیں ارسا کے چیئرمین کے سامنے ایک نظرثانی درخواست دائر کرنی ہوگی جو اپنی طرف سے مقرر کردہ ایک ’آزاد ماہرین کی کمیٹی‘ کی مدد سے اسپیکنگ آرڈرز کے ذریعے معاملے کا فیصلہ کرے گی۔

اکیلے چیئرمین کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ وفاقی حکومت سے کسی بھی مقام یا تنصیب کے تحفظ کے لیے پاکستان کی مسلح افواج یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے مناسب سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کرے۔

چیئرمین کو بڑے پیمانے پر اختیارات دینے کی نئی شق تجویز کی گئی ہے، اس میں لکھا ہے کہ ارسا کا اپنا سیکرٹریٹ اور ایسے دیگر دفاتر ہوں گے جو افسران، ملازمین یا کنسلٹنٹس پر مشتمل ہوں گے جنہیں چیئرمین وقتاً فوقتاً اس ایکٹ کے تحت وضع کردہ امور کو سرانجام دینے کے لیے ضروری سمجھے گا۔

ہائیڈرولوجی، ہائیڈرولک ماڈلنگ یا متعلقہ انجینئرنگ کے 2 ماہرین، ریموٹ سینسنگ، جی آئی ایس، آبپاشی یا متعلقہ انجینئرنگ کے 2 ماہرین اور دیگر متعلقہ شعبوں کے 4 ماہرین کو بھی چیئرمین ارسا مختلف امور پر مشورے کے لیے بھرتی کرسکے گا۔

سینیٹ انتخابات: یوسف رضا گیلانی سمیت پیپلز پارٹی کے 4 امیدوار کامیاب

پی ایس ایل فیصلہ کُن مرحلے میں داخل، فائنل میں کونسی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی؟

حجاب نہ پہننے پر مذہبی رہنما کی ایرانی خاتون سے بحث کی ویڈیو وائرل