پاکستان

سائفر کیس: سزا کے خلاف اپیل قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی وکلا سے دلائل طلب

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے اپیل کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھادیا ہے۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکیل سلمان صفدر، سکندر ذوالقرنین و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پراسیکیوشن ٹیم میں اسپیشل پراسیکیوٹر جسٹس ریٹائرڈ حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

سامعت کے آغاز پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے اپیل پر اعتراض اٹھا دیے، انہوں نے کہا کہ یہ اپیل قابل سماعت ہی نہیں ہے، مجھے 15 منٹ دلائل کے لیے دیے جائیں۔

’آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت اپیل کا حق نہیں ہے‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اپیل پر اعتراض ہے تو آپ عدالت کو بتائیں کہ کیوں یہ قابل سماعت نہیں؟ حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت اپیل کا حق نہیں ہے۔

بعد ازاں عدالت نے حامد علی شاہ کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ پڑھنے کی ہدایت کردی جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا نوٹیفکیشن عدالت کو پڑھ کر سنایا۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سائفر کیس میں پاکستان کریمنل لا ترمیمی ایکٹ 1958 کا نفاذ کیا گیا، کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1958 ایکٹ کا نفاذ بھی صرف ٹرائل کی حد تک ہوگا، سیکشن 13، 6 میں کہا گیا کہ ان قوانین کا اطلاق ہوگا جو قانون میں موجود ہوں،1923 کے ایکٹ میں بھی اپیل کا کوئی حق نہیں ہے، سیکشن 10 میں اپیل کا حق حاصل ہے، مگر صرف ٹرائل کی حد تک۔

انہوں نے کہا کہ 1923 کے ایکٹ میں اپیل کا حق بھی نہیں، نہ ہی پاکستان کریمنل لا کے نفاذ کا کہا گیا ہے ، 1923 آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت کو ٹرائل کے پروسیجر کا اختیار ہے۔

عدالت نے دریافت کیا کہ کیا آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کچھ کہا ہے کہ اپیل دائر ہوگی یا نہیں؟ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت اپیل کا کوئی حق ہی نہیں ہے؟

بعد ازاں ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے عدالت میں مختلف ملکی و غیر ملکی عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے، ان کا کہنا تھا کہ نیب قوانین میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق 199 کے تحت دیا گیا ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور پاکستان کریمنل ترمیمی لا اپیل کے حوالے سے واضح ہے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اپیل ڈویژن بینچ نہیں سن سکتا، ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈر کے مطابق ڈویژن بینچ کے سامنے اس طرح کے کیس نہیں لگ سکتے ہیں، ڈویژن بینچ کے سامنے کرمنل پروسیجر کی صرف سزائے موت کی سزا کے خلاف اپیل لگ سکتی ہے، اگر اپیل قابل سماعت ہوتی بھی تب بھی اپیل سنگل بینچ سن سکتا ہے۔

بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ اس کیس میں ایک سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کو سزا ہوئی ہے، سیکشن 6 کے تحت اس کیس میں کرمنل لا پروسیجر اپلائی کرتا ہے، پراسیکیوشن نے کہا کہ یہ بینچ اپیل نہیں سن سکتا، وہ نہیں سن سکتا، یعنی کہ ان ڈائرکٹ اپیل ہی قابل سماعت نہیں،۔

’کیا عوامی نمائندوں کو جو سزا دی گئی ان کے خلاف کہیں اپیل دائر نہیں ہوگی؟‘

سلمان صفدر نے کہا کہ آرمز فورسز کے کیسز میں بھی 199 کے تحت نظر ثانی کی اپیل دائر ہوتی ہیں، کیا عوامی نمائندوں کو جو سزا دی گئی ان کے خلاف کہیں اپیل دائر نہیں ہوگی؟

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے دائرہ اختیار کے ساتھ ساتھ پروسیجرل طریقہ کار کا بھی سوال ہے۔

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ ہمیں ابھی اپیل سے متعلق پروسیجرل طریقہ کار بتائیے کہ طریقہ کار کیا ہوگا؟ بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے ججز کی تعیناتی سے متعلق قوانین پڑھ کر سنائے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے اسپیشل کورٹس کے ججز کی تعیناتی کے قوانین عدالت کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ پروسیجرل لا تمام سی آر پی سی تو نہیں ہے، بلکہ ایک شق ہے، سیکشن 10 کو دیکھیں تو اس نے طریقہ کار سے متعلق بتایا ہے،کیا یہ اپیل سیکشن 10 کے تحت یا سی آر پی سی کے تحت دائر ہوئی ہے؟

سلمان صفدر نے کہا کہ یہ اپیل سیکشن 410 کے تحت ہی دائر کی گئی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے ایک بار پھر اسپیشل کورٹس کے ججز کی تعیناتی کے بارے میں قوانین کا حوالہ دیا۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ صفدر صاحب! جو سوالات پوچھے گئے ہیں، انہی پر دلائل دیں، کچھ قوانین کا استمال بارڈر کے اُس پار بھی ہو رہا ہے۔

بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے اسپیشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی پر اعتراض اٹھا دیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے اپیلوں پر بنیادی اعتراض اٹھایا ہے، آپ اس نکتے پر آپ عدالت کی معاونت کریں۔

’اگر اعتراض منظور بھی کر لیا جاتا ہے پھر بھی کارروائی ختم نہیں ہوگی‘

عدالت نے کہا کہ اگر اعتراض منظور بھی کر لیا جاتا ہے پھر بھی کارروائی ختم نہیں ہوگی، یہ واضح ہے کہ اعتراض منظور ہونے پر اپیل کی صورتحال تبدیل ہو جائے گی، ختم نہیں ہو گی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم پہلے بنیادی اعتراض کو سن کر فیصلہ کریں گے، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ کسی کو بھی قانونی چارہ جوئی کے بغیر چھوڑا نہیں جا سکتا ہے، پراسیکیوشن نے جو سوال اٹھایا ہے اس کو دیکھنا ہوگا۔

وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اپیل کا حق سزائے موت کے خلاف بھی ہے، بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ہائی کورٹ میں 199 کے تحت رٹ کا دائرہ اختیار واضح ہے۔

بانی پی ٹی آئی کے وکلا کے آپس میں گفتگو پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہ کریں، کوئی عدالتی فیصلے لائیں۔

وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کے اعتراض کا وقت اب گزر چکا، اب تو اپیل پر نوٹسسز بھی ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے انگریزی لکھنی ہے ان کی طرف سے عدالتی فیصلے آئیں گے تو آپ کی طرف سے بھی آنے چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوشن کے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر اعتراض پر پی ٹی آئی وکلا سے دلائل طلب کرتے ہوئے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت 13 مارچ تک ملتوی کردی۔

وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں توشہ خانہ تحائف کیس پر دلائل دینے کی استدعا کردی۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر رافع مقصود نے کہا کہ نیب کیس میں اسپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس میں سلمان صفدر کو دلائل مکمل کرنے دیں، پھر نیب کیسز پر بھی دلائل سن لیں گے بعد ازاں توشہ خانہ تحائف کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کی اپیلوں پر بھی سماعت ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ (آج) مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

اگر گوہر رشید سے شادی ہوئی تو یہ مداحوں کی وجہ سے ہوگی، کبریٰ خان

جے یو آئی کے کوٹے پر نامعلوم خاتون کا مخصوص نشست پر کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری

وزیر اعظم شہباز شریف سے سعودی سفیر کی ملاقات، دورے کی دعوت