پاکستان

’پارٹی آئینی حق سے محروم ہوگئی‘، سنی اتحاد کونسل سے مخصوص نشست لینے پر ماہرین کی رائے

الیکشن کمیشن نے سابقہ ​​فیصلوں کی طرح اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے جس نے پاکستانی عوام کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا، بیرسٹر رحیم

گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق دائر پٹیشن کو مسترد کرنے کے فیصلے پر وکلا اور کارکنوں نے بڑی حد تک تنقید کی گئی تاہم، بعض ماہرین نے الیکشن کمیشن کےفیصلے کی حمایت کی۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ عقل سے عاری ہے، بیرسٹر اسد رحیم

ڈان سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر اسد رحیم خان نے انتخابی نگران ادارے کے فیصلے کو قانون اور بنیادی عقل سے عاری قرار دے دیا، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سابقہ ​​فیصلوں کی طرح اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے جس نے پاکستانی عوام کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ایک پارٹی کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کی منطق صرف اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب اسی ترتیب میں الیکشن کمیشن آزادانہ طور پر بقیہ نشستوں کو متناسب نمائندگی کی آڑ میں چھوٹی جماعتوں کو تقسیم کرتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے جمہوریت کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں، بیرسٹر رِدا

الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے بیرسٹر رِدا حسین نے کہا کہ انتخابی نگران ادارے کے لیے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کو دوسری جماعتوں میں تقسیم کرنا مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر دعویٰ کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 51 واضح طور پر کہتا ہے کہ مخصوص نشستوں کے اراکین کا انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے ذریعے کیا جانا ہے، جو کہ قومی اسمبلی میں کسی سیاسی جماعت کی حاصل کردہ جنرل نشستوں کی تعداد کی بنیاد پر ہے۔

بیرسٹر ردا نے کہا کہ مخصوص نشستیں ایک سیاسی جماعت کا آئینی حق ہے اور دوسری جماعتوں کو منتقل نہیں کی جا سکتی ہیںان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی پوزیشن بہت کمزور ہے کہ صرف وہ سیاسی جماعتیں جو ’جیتنے والی نشستوں‘ کے ذریعے نمائندگی رکھتی ہیں، مخصوص نشستوں کی حقدار ہیں۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آئین میں کہا گیا ہے کہ آزاد امیدوار جو اپنے نام گزٹ میں شائع ہونے کے تین دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں ان کو ان مخصوص نشستوں کا حساب کتاب کرتے وقت شامل کیا جائے گا جس کی ایک پارٹی حقدار ہے۔

وکیل نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، تاخیر کے حوالے سے، 2018 سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس میں مخصوص نشستوں کے لیے پارٹی فہرستیں جمع کرانے میں ایک دن کی تاخیر کو معاف کیا گیا ہے۔

بیرسٹر ردا نے مزید کہا، اس فیصلے کی ایک وجہ یہ تھی کہ مخصوص نشستوں کے لیے پارٹی کی فہرستیں جمع نہ کرانے کے لیے قانون میں کوئی واضح سزا نہیں ہے الیکشن کمیشن کے فیصلے جمہوریت کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ موجودہ حالات پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھیننے کا براہ راست نتیجہ ہے۔

بیرسٹر ردا کے مطابق پہلے ہی ایک غیر متناسب جرمانہ عائد کرنے کے بعد، الیکشن کمیشن نے اب ایک اور مضحکہ خیز حکم کے ذریعے سنی اتحاد کونسل (جس میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شامل ہیں) کو ان کی مخصوص نشستوں کا حصہ سینے سے انکار کر دیا ہے۔

ایک پارٹی کو آئینی حق سے محروم کر دیا گیا، عبدالمعز جعفری

ایڈووکیٹ عبدالمعز جعفری نے اس حوالے سے کہ الیکشن کمیشن نے ایک پارٹی کو اس کے آئینی حق سے محروم کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی توقع بہت زیادہ تھی تاہم، پی ٹی آئی نے تکنیکی کھیل کھیل کر اور خود کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایسا ہونے دیا جب کہ حقیقت میں انہیں اپنی جگہ پر ڈٹ جانا چاہیے تھا اور پی ٹی آئی کے حق کے طور پر مخصوص نشستوں کا دعویٰ کرنا چاہیے تھا۔

عبدالمعز جعفری کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے پاکستان تحریک انصاف نے آزاد امیدواروں کی کو قبول کیا جو کہ ایسا نہیں تھا، یہ تمام پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، جنہیں صرف ایک متحدہ نشان سے محروم رکھا گیا تھا نہ کہ ایک پارٹی کی حیثیت سے جو کہ آئینی طور پر تسلیم شدہ استحقاق ہے۔

الیکشن کمیشن کے اوپر آزادانہ انتخابات کروانے کی ذمہ داری ہے، اشتر اوصاف

دوسری جانب سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کو مسترد کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی حمایت کردی۔

جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو سمجھنا ضروری ہے کہ قانون اور آئین کے مطابق اس کا کیا مطلب ہے۔

اشتر اوصاف کا کہنا تھا الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جس کے پاس نہ صرف دائرہ اختیار ہے بلکہ اس کے اوپر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کی ذمہ داری بھی ہے، سیاسی جماعتیں امیدواروں کی عارضی فہرستیں جمع کراتی ہیں اور نتیجہ کے بعد پارٹیوں کو مخصوص نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں امیدوار پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں وہ سنی اتحاد کونسل سے پہلے ایک سیاسی جماعت میں گئے تھے لیکن اس پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ اس میں شامل ہو گئے۔

نیپرا کا کے-الیکٹرک سمیت بجلی کمپنیوں کی لائسنس فیس میں اضافے کا منصوبہ

پاکستان کی نئی قومی اسمبلی کے دلچسپ و منفرد اعزازات

امریکا نومنتخب حکومتِ پاکستان کے ساتھ ’مضبوط‘ تعلقات جاری رکھنے کا خواہاں