لاہور ہائیکورٹ: شہزاد اکبر نے سلیمان شہباز کی ایف آئی اے مقدمے میں بریت چیلنج کردی
سابق مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے درج 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگکے مقدمے میں بریت کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
شہزاد اکبر کی جانب سے ایف آئی اے سینٹرل کورٹ نمبر ون کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے۔
شہزاد اکبر نے درخواست میں ایف آئی اے، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ایف آئی اے سینٹرل کورٹ کا فیصلہ حقائق سے ہٹ کر ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ دوران انکوئرای 28 بے نامی اکاونٹ سامنے آئے، 15 ہزار ٹرانزیکشن کا ریکارڈ بھی موجود تھا جس کو چالان کا حصہ بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار شہزاد اکبر کے مطابق چالان میں 100 گواہوں کی فہرست فراہم کی گئی۔
مزید کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کے برعکس ملزمان کو مقدمے سے بری کیا، ٹرائل کورٹ نے جن ملزمان کو بری کیا، ان کے خلاف دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ٹرائل عدالت کا بریت کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
خیال رہے کہ 10 جولائی 2023 کو اسپیشل کورٹ لاہور سینٹرل نے وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز کو ایف آئی اے کی جانب سے درج 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ مقدمے میں بری کردیا تھا۔
واضح رہے کہ لندن میں چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد دسمبر 2022 میں پاکستان واپس آنے والے سلیمان شہباز ایف آئی اے میں درج منی لانڈرنگ کیس میں ملزم تھے جب کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں نامزد کیا تھا۔
انہیں دونوں مقدمات میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا لیکن ان کی واپسی سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکام کو انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں خصوصی عدالت نے وزیراعظم اور ان کے بڑے صاحبزادے حمزہ شہباز کو بھی اسی کیس میں بری کر دیا تھا۔
منی لانڈرنگ کیس
ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، سلیمان شہباز برطانیہ میں تھے اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔
بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 5 (2) اور 5 (3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا۔
شہباز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔
ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کردیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تھا جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔
ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔
چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا۔
ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔‘
چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔