’معلوم ہونا چاہیے 75سال تک کیا کھلواڑ ہوا‘ خواجہ آصف فیض آباد دھرنا کمیشن میں پیش
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر 2017 میں فیض آباد انٹرچینج پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ تین رکنی کمیشن میں پیشی کے بعد کہا ہے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ 75 سال تک ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے بیان میں سابق وزیر دفاع نے کہا کہ میں آج فیض آباد دھرنا کمیشن کے سامنے پیش ہوا اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن میں میرا بیان آج نامکمل رہا جو جلد مکمل ہو جائے گا۔
اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ میری ر اۓ ہے کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی کارروائی اوپن ہو اور اس کی میڈیا کوریج کی جائے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کے ساتھ 75 سال کیا کھلواڑ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں آج تک جتنے بھی کمیشن بنے، ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ان کے نتائج بھی عوام کے سامنے نہیں آئے۔
سیئنر سیاستدان نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا سامنا کریں اور کفارہ ادا کریں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید نے بھی فیض آباد دھرنا کمیشن میں پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔
اس سے قبل کمیشن نے موجودہ نگران وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد سے بھی پوچھ گچھ کی تھی، جو اُس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔
فیض آباد دھرنا کمیشن ڈاکٹر اختر علی شاہ کی صدارت میں کام کر رہا ہے، سابق آئی جی طاہر عالم اور خوشحال خان بھی کمیشن میں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ 15 نومبر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق اس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت نے کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، 2 ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل ہیں۔
ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو موصول نوٹی فکیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس میں تحقیقاتی کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر، سابق وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر کو طلب کیا تھا۔
کمیشن نے سابق شہباز شریف کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے بیان قلمبند کرانے کے لیے طلب کیا تھا۔
15 نومبر کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریماکس دیے تھے کہ حکومت کا تشکیل کردہ انکوائری کمیشن سابق وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بلا کر بھی تفتیش کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے معاملے پر سماعت کی تھی۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا تھا کہ کسی کو استثنیٰ نہیں، سب کو کمیشن بلا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سچ اگلوانا ہو تو ایک تفتیشی بھی اگلوا لیتا ہے اور نہ اگلوانا ہو تو آئی جی بھی نہیں اگلوا سکتا، دھرنے کی تحقیقات کرنے والا انکوائری کمیشن سابق وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بلا کر بھی تفتیش کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن جسے بلائے اور وہ نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کروا سکتا ہے، کمیشن آنکھوں میں دھول بھی بن سکتا ہے اور نیا ٹرینڈ بھی بنا سکتا ہے۔
فیض آباد دھرنا
یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب طلب کیا تھا۔