2023 سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے کیسا رہا؟
2023 کا سال سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے لیے حیران کن رہا، کئی نئے اسٹارٹ اپس سامنے آئے، مصنوعی ذہانت میں جدت دیکھی گئی، بدلتی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کئی انکشافات سامنے آئے، مجموعی طور پر سائنس کی دنیا میں دلچسپ واقعات سے بھرا ایک سال تھا۔
مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے، ہر گزرتا سال ٹیکنالوجی میں ایک نئی جدت لاتا جا رہا ہے۔ ہماری زندگی ڈیجیٹلائز ہوتی جا رہی ہے، ٹیکنالوجی زندگی کو سہل اور فاصلوں کو کم کر رہی ہے۔
بھارت کی چاند کے تاریک حصے تک رسائی
جہاں مغربی دنیا خلا میں راکٹ بھیجنے میں مصروف تھی وہیں بھارت خاموشی سے سائنسی دنیا میں نئی کامیابیاں سمیٹنے میں مصروف تھا۔
23 اگست 2023 کو بھارت کا تاریخی خلائی مشن چندریان 3 نے چاند کے جنوبی حصے میں لینڈنگ کرکے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا، مستقل طور پر سائے میں رہنے کی وجہ سے اس حصے کو ’چاند کا اندھیرے والا حصہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
چندریان 3 چاند کے جنوبی قطب پر اترنے والا پہلا خلائی جہاز تھا، جو کہ خلائی ایجنسیوں اور نجی خلائی کمپنیوں کے لیے خصوصی دلچسپی کا علاقہ ہے کیونکہ وہاں پانی کی جمی ہوئی تہہ موجود ہے جو مستقبل کے خلائی اسٹیشن کو سہارا دے سکتی ہے۔
خلا سے متعلق یہ سال اس لیے بھی اہم ہے کہ چین نے جون 2023 میں دنیا کا پہلا ایسا راکٹ خلا میں بھیج کر نیا ریکارڈ بنا لیا جس میں میتھین اور سیال آکسیجن کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
زوکیو 2 نامی راکٹ کو 12 جولائی کو شمال مغربی چین میں واقع لانچ سینٹر سے زمین کے مدار پر روانہ کیا گیا تھا، یہ بیجنگ سے تعلق رکھنے والی کمپنی لینڈ اسپیس کی جانب سے اس ایندھن پر مشتمل راکٹ کو بھیجنے کی دوسری کوشش تھی۔
مصنوعی ذہانت میں پیشرفت
سال 2023 مصنوعی ذہانت کے لیے بہت اہم ثابت ہوا، 2022 میں متعارف کروایا جانے والا چیٹ جی پی ٹی 2023 میں دنیا بھر میں وائرل ہوا تھا، لاکھوں صارفین اسے انسائیکلوپیڈیا کے طور پر استعمال کرتے رہے۔
رواں سال چیٹ جی پی ٹی کو مزید اَپ گریڈ بھی کیا گیا اس میں نئے جدید فیچرز متعارف کروائے گئے، یہی نہیں بلکہ اس میں اب حال کی معلومات بھی جان سکتے ہیں۔
اسی دوران کئی سائنسی ماہرین کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی پر سخت تنقید کی گئی، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کئی ممالک نے اس پر پابندی بھی عائد کی تاہم اب بھی کئی ممالک اسے استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
###جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی حیرت انگیز تصاویر
اپریل 2023 میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے نظام شمسی کے ساتویں سیارے یورینس (Uranus) کی نئی تصویر جاری کی تھیں جسے جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ سے بنایا گیا تھا۔
نظام شمسی میں موجود سیارے یورینس کے گرد دائرے واضح نہیں تھے تاہم جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے لی گئی پہلی بار حیرت انگیز تصاویر کے بعد سائسدانوں کو ان دائروں سے متعلق دلچسپ ڈیٹا معلوم ہوا تھا۔
امریکی خلائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق انفراریڈ ویوز اور جیمز ویب ٹیلی اسکوپ باریک بینی سے سیارے کے ماحول میں موجود شاندار دائروں کو سامنے لے کر آئے تھے۔
’2023 انسانی تاریخ کا گرم ترین سال‘
2023 ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی پریشان کن ثابت ہوا۔
شمالی نصف کرہ میں گرم ترین موسم کے علاوہ ہیٹ ویوو، خشک سالی اور جنگل کی آگ بالخصوص کینیڈا کے جنگل میں لگی خوفناک آگ نے ایشیا، افریقا، یورپ اور شمالی امریکا کو شدید متاثر کیا تھا، جس کے نتیجے میں معیشت، ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر 2023 انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی رواں سال کہا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن نتائج کا آغاز ہوچکا ہے۔
خلائی مخلوق کی طرح نظر آنے والی لاشوں کی حیران کن دریافت
ستمبر 2023 میں پیرو میں خلائی مخلوق کی طرح نظر آنے والی دو لاشیں دریافت ہوئی تھیں جنہیں میکسیکو کی گانگریس میں پیش کیا گیا ہے۔
میکسیکو کی کانگریس میں مبینہ اجنبی مخلوق کے وجود سے متعلق سماعت میں اجنبی لاشوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے یو ایف او لوجسٹ اور صحافی جیمی موسان نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ لاشیں انسان کی نہیں بلکہ کسی اور مخلوق کی لاشیں ہیں۔
صحافی جیمی موسان نے کچھ ویڈیوز بھی دکھائیں تھیں جس میں اجنبی لاشیں ملنے کا بھی انکشاف کیا گیا، اس دریافت نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
انہوں نے گانگریس میں حلف لیتے ہوئے کہا کہ یہ لاشیں ہمارے زمینی ارتقا سے تعلق نہیں رکھتیں، یہ یو ایف او کے ملبے سے نہیں ملیں بلکہ قدیم سرنگوں سے دریافت ہوئی ہیں۔
بعدازاں ناسا کی تشکیل کردہ ایک 16 رکنی ٹیم نے کہا تھا کہ پینل کو ان یو ایف اوز کے بارے میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ ان کا تعلق کسی دوسرے سیارے سے ہے۔
بحر اوقیانوس میں غرقاب آبدوز ٹائٹن کا المناک واقعہ
19 جون 2023 کو ٹائٹن نامی تفریحی آبدوز بحرِ اوقیانوس میں 3800 میٹر گہرائی میں موجود تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر روانہ ہوئی تھی لیکن سفر کے آغاز کے پونے دو گھنٹے بعد اس سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر)گہرائی میں موجود تھی۔
اس واقعے نے بھی پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
21 فٹ کی چھوٹی آبدوز کی تلاش کے لیے امریکی کوسٹ گارڈ نے ریسکیو آپریشن شروع کیا جو 5 روز تک جاری رہا، پانچ روز بعد امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی کہ لاپتا آبدوز ٹائٹن کی تلاش کے دوران سمندر کی تہہ میں ٹائٹینک کے قریب سے کچھ ملبہ ملا ہے۔
جس کے بعد آبدوز کی مالک کمپنی اوشن گیٹ نے اس میں سوار 2 پاکستانیوں سمیت پانچوں افراد کی موت کی تصدیق کردی تھی۔