چترال: امریکی شہری کا ’ریکارڈ بولی دے کر‘ کشمیر مارخور کا شکار
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر چترال کے توشی شاشاکمیونٹی کے زیر انتظام گیم ریزرو میں ایک امریکی شہری نے 2 لاکھ 12 ہزار امریکی ڈالر کی خطیر رقم دے کر ساڑھے 9 سالہ کشمیر مارخور کا شکار کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وائلڈ لائف ڈویژن چترال نے بتایا کہ امریکی شہری نے محکمہ جنگلی حیات سے مارخور کا شکار کرنے کا اجازت نامہ حاصل کیا تھا۔
وائلڈ لائف ڈویژن چترال کے ڈویژنل فارسٹ افسر فاروق نبی نے ڈان کو بتایا کہ مارخور کے شکار کے لیے امریکی شہری ڈیرون جیمز مل مین کو پہاڑوں کے اوپر نہیں جانا پڑا اور ملحقہ شالی گاؤں کے قریب گندم کے کھیت میں ہی وہ شکار کرنے میں کامیاب رہا۔
فاروق نبی نے کہا کہ شکار کیے گئے مارخور کے سینگ کی لمبائی 45 انچ ہے جب کہ جانوروں کے لیے محفوظ بنائے گئے چترال کے اس جنگل میں شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کی سب سے زیادہ لمبائی 53 انچ ہے۔
فاریسٹ افسر نے کہا کہ کمیونٹی کی جانب سے تحفظ فراہم کیے جانے کی وجہ سے کشمیر مارخور کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مارخور توشی شاشا کنزروینسی کے قریب واقع دیہاتوں کے گندم کے کھیتوں میں گھسے جس کے لیے محکمہ جنگلات نے کسانوں کو معاوضہ دیا۔
مخصوص علاقے میں مارخور کی تعداد کو یقینی بنانے کے لیے محکمہ جنگلی حیات ہر سال ضلع چترال میں صرف دو مارخوروں کی نیلامی کرتا ہے اور کامیاب بولی لگانے والوں کو شکار کا اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارخور پرمٹ فیس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 80 فیصد حصہ مختلف دیہاتوں میں بنائی گئی ولیج کنزرویشن کمیٹیز (وی سی سی) کے ذریعے مقامی کمیونٹی کو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال کے شروع میں بھی چترال کے اسی علاقے میں ایک کینیڈین شہری تھامس ریناٹو مارٹینی نے کشمیر مارخور کا شکار کیا تھا، شکار کیے گئے کشمیر مارخور کے بائیں سینگ کا سائز 43 انچ اور دائیں سنگ کا سائز ساڑھے 43 انچ تھا، بائیں اور دائیں سینگوں کا قطر 12 انچ تھا جبکہ دونوں سینگوں کے درمیان بنیادی فاصلہ ڈیڑھ انچ تھا۔
واضح رہے کہ اگست 2022 میں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات گلگت بلتستان نے ٹرافی ہنٹنگ پالیسی کے تحت جنگلی نایاب جانور استور مارخور کے شکار کا لائسنس ایک لاکھ 65 ہزار امریکی ڈالرکی تاریخی قیمت پر فروخت کیا تھا جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریباً 3 کروڑ 71 لاکھ 86 ہزار بنتے تھے۔
گزشتہ 2 سالوں میں استور مارخور کا لائسنس تاریخ کے مہنگے ترین دام پر فروخت کیا گیا، اس سے قبل استور مارخور کا لائسنس ایک لاکھ سے ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالر پر نیلام ہوتا رہا تھا، تاہم گزشتہ سال ڈالر کی قدر تیزی سے بڑھنے کا عوام کو غیر معمولی مالی فائدہ حاصل ہوا ہے۔
گلگت بلتستان میں استور مارخور کے شکار کے لیے ملکی کمپنیوں سے لائسنس امریکا، فرانس اور یورپی ممالک کے باشندے حاصل کرتے ہیں۔
ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت ہر سال جنگلی جانوروں کے شکار کے لائسنسز کے لیے بولی کا اہتمام کیا جاتا ہے، ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت زیادہ بولی دینے والی رجسٹرڈ آؤٹ فٹر کمپنیوں کو 3 اقسام کے جنگلی جانوروں استور مارخور، آئبیکس اور بلیو شیپ کے شکار کے لیے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔
سالانہ جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے جاری سب سے مہنگا لائسنس استور مارخور کا فروخت کیا جاتا ہے۔
محققین کے مطابق مارخور گلگت بلتستان میں قیام پاکستان سے قبل سب سے پہلے استور میں دریافت ہوا تھا، اس لیے اس کا نام استور مارخور کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، مارخور پاکستان کا قومی جانور بھی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ سیزن نومبر میں شروع ہوتا ہے اور اپریل میں اختتام پذیر ہوجاتا ہے، غیر ملکی، قومی اور مقامی شکاری لائسنس حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کے محفوظ علاقوں میں شکار کرتے ہیں۔
ٹرافی ہنٹنگ پروگرام 80 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا جو جنگلی حیات کی نایاب نسل کے عالمی کنونشن کے تحت ہوتا ہے اور گلگت بلتستان کے صرف مخصوص علاقوں میں ہی اس کی اجازت ہے۔