پاکستان

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم ایک ساتھ نہیں چل سکتے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے کے بعد اس آئینی تشریح پرکم سے کم پانچ ججز کا بینچ بننا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
|

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے میر بادشاہ خان قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوا دیا، کیس کی اگلی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا، موجودہ کیس کا نوٹس انگریزی کے دو بڑے اخبارات میں شائع کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے نوٹس میر بادشاہ قیصرانی کی تاحیات نااہلی کے کیس میں لیا، عدالتی حکم نامے کے مطابق کمیٹی طے کرے گی کہ لارجر بینچ 5 رکنی ہوگا یا 7 رکنی، کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے تو بن سکتی ہے۔

عدالت نے حکمنامے کی نقل الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کرنے کا حکم دے دیا۔

سماعت کے دوران تاحیات نااہلی اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم زیر بحث آئیں جس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے، اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ لائیو ایشو کیسے ہے؟

وکیل درخواست گزار ثاقب جیلانی نے جواب دیا کہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟ وکیل نے بتایا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں نااہل کیا گیا، انہوں نے مزید بتایا کہ ہائی کورٹ نے 2018 کے انتخابات میں میر بادشاہ کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی تھی، میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہوجائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ اس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والےکو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کی تشریح پر پاناما کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟

وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی 5 سال کی ہوگی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 (ون) (ایف) سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال کردی گئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ، سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کر سکتی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئی تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا، الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر؟

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کا اطلاق موجودہ انتخابات پر ہوگا، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 کی شمولیت کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق تمام فیصلے غیر موثر ہو گئے ہیں۔

وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ میر بادشاہ قیصرانی 2007 کے انتخابات میں گریجویشن کی جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے، 2018 کے عام انتخابات میں میر بادشاہ قیصرانی نے میٹرک کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، ہائی کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی، آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت میر بادشاہ قیصرانی تاحیات نااہل ہیں اور انتخابات نہیں لڑ سکتے تھے، سپریم کورٹ نے فیصلہ نہ کیا تو نااہلی کے باوجود آئندہ انتخابات لڑیں گے۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ میر بادشاہ قیصرانی کی سزا کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، سپریم کورٹ ہائی کورٹ کو حکم دے کہ اپیل پر فیصلہ کرے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کو حکم نہیں دے سکتی، ہم ہائی کورٹ پر مانیٹرنگ جج نہیں بیٹھے ہوئے، ہم ہائی کورٹ میں زیر التوا اپیل کے معاملے پر نہیں آئینی معاملے پر فیصلہ کریں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی کے بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا، سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی پانچ سال ہے تو نماز نہ پڑھنے والے یاجھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے کے بعد اس آئینی تشریح پر کم سے کم پانچ ججز کا بینچ بننا چاہیے۔

عدالت نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کیا کہ کیس ہارنے یا جیتنے سے بہتر عدالت کی معاونت کرنا ہوتا ہے، آپ کی توسط سے یہ کنفیوژن دور ہوجائے گی۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ وقافی حکومت کی نااہلی سے متعلق کیا رائے ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاق کی یہ رائے ہے کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 232 سپریم کورٹ کے فیصلے سے بالا ہے۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نااہلی سے متعلق تین اپیلیں آئیں، سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ 2008 اور 2018 کے انتخابات سے متعلق تھا، درخواست گزار کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی کے ساتھ 2 سال کی سزا بھی ہوئی۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار کی نااہلی کی سزا کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، سپریم کورٹ صرف نااہلی کے سوال کو دیکھے گی، درخواست گزار کے وکیل کے مطابق میر بادشاہ قیصرانی کی نااہلی تاحیات ہے، جبکہ نااہلی کی مدت الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232 میں 5 سال کی گئی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق سیکشن 232 سپریم کورٹ کے تاحیات نااہلی کے فیصلے سے بالا ہوگا جبکہ وکیل درخواست گزار کے مطابق سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) میں تاحیات نااہلی کی تشریح کرچکی ہے، وکلا کے مطابق الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232 کو چیلنج نہیں کیا گیا، آئندہ انتخابات میں اس معاملے سے ریٹرننگ افسران کو کنفیوژن ہوگی، ریٹرننگ افسر الیکشن الیکشن ایکٹ پر انحصار کرے یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر یہ مخمصہ جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی خدشہ ہے کہ الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں غیر ضروری مقدمہ بازی میں پھنس جائیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق یہ آئینی تشریح کا معاملہ ہے اور لارجر بینچ کے سامنے مقرر ہونا چاہیے، نااہلی سے متعلق معاملہ بینچ کی تشکیل کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوایا جاتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کیا جاتا ہے، نااہلی سے متعلق معاملے پر معاونت کے لیے الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت بے یقینی کی صورتحال ہے۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ نے یہ بے یقینی والی بات دوبارہ نہیں کرنی، انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے، بےیقینی کی بات کرنے والا توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس کو الیکشن کمیشن سمیت کوئی انتخابات میں تاخیر کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت جنوری 2024 تک ملتوی کردی۔

بچے کی پیدائش کے بعد ہر 3 میں سے ایک خاتون طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنے پر مجبور

بدعنوانی کیس: فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، نگران وزیر خارجہ