پاکستان

پرویز الہٰی، مونس الہٰی کے خلاف ٹھیکوں میں کک بیکس کی تحقیقات مکمل، نیب ریفرنس دائر

سابق وزیراعلیٰ پنجاب سمیت دیگر نے ایک ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کا مالی فائدہ لیا، ملزمان تفتیش میں قصوروار پائے گئے، عدالت سزا دے، استدعا
|

سابق وزیراعلیٰ پنجاب و صدر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چوہدری پرویز الہٰی اور مونس الہٰی سمیت دیگر کے خلاف گجرات میں تعمیراتی ٹھیکوں میں کرپشن و کک بیکس کے الزامات کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد نیب نے ایک ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کا کرپشن ریفرنس احتساب عدالت لاہور میں دائر کر دیا۔

نیب لاہور کی جانب سے دائر ریفرنس میں پرویز الہٰی اور ان کے بیٹے مونس الہٰی کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے جنہوں نے ریفرنس کے مطابق 74 کروڑ 45 لاکھ روپے کے کک بیکس حاصل کیے، پرویز الہٰی سمیت 14 ملزمان کے خلاف دائر ریفرنس کے مندرجات ’ڈان نیوز‘ نے حاصل کر لیے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ پرویز الہٰی اور مونس الہٰی سمیت دیگر ملزمان قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں ملوث پائے گئے ہیں، پرویز الہٰی نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کک بیکس اور رشوت وصول کی۔

نیب ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ مونس الہٰی کے سیکرٹری سہیل اعوان اور 2 سابق سرکاری ملازمین پرویز الہٰی اور دیگر کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں، پرویز الہٰی اور مونس الہٰی نے گجرات کے لیے غیر قانونی طور پر 116 ترقیاتی سکیمیں منظور کرائیں۔

ریفرنس کے مطابق پرویز الہٰی اور مونس الہٰی نے من پسند ٹھیکے داروں کو کنٹریکٹ دلوا کر رشوت حاصل کی، پرویز الہٰی سمیت دیگر ملزمان نے مل کر رشوت اور کک بیکس کی مد میں ایک ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کا مالی فائدہ لیا۔

نیب ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ پرویز الہٰی نے سب سے زیادہ 74 کروڑ 45 لاکھ روپے سے زائد رقم رشوت اور کک بیکس کی مد میں وصول کی، مونس الہٰی کا اکاؤنٹنٹ کک بیکس کی رقم مونس الہٰی اور ان کی فیملی کے اکاؤنٹس میں جمع کراتا رہا۔

ریفرنس کے مطابق پرویز الہٰی کی وزارت اعلیٰ کے دوران مونس الہٰی نے 10 لاکھ 61 ہزار یوروز اپنے غیر ملکی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے، سابق وزیراعلیٰ کی وزارت اعلیٰ کے دوران ان کے فیملی اراکین نے 30 کروڑ 40 لاکھ سے زائد رقم اپنے ذاتی اکاؤنٹس میں جمع کرائی۔

نیب کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس میں استدعا کی گئی کہ ملزمان تفتیش میں قصوروار پائے گئے ہیں، احتساب عدالت ٹرائل کر کے ملزمان کو سزا دے۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاؤالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکے کیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

پھر 4 جولائی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پرویز الہٰی کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست کو ان کے گھر پر چھاپہ مارنے والی پولیس ٹیم پر حملہ کرنے کے کیس میں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

تقریباً ایک ہفتے بعد لاہور ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے آئی جی میاں فاروق کو ہدایت کی کہ وہ جیل میں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کے فقدان سے متعلق پی ٹی آئی صدر کی شکایات کا ازالہ کریں۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

14 اگست کو نیب نے پرویز الہٰی کو اڈیالہ جیل سے رہا ہوتے ہی آمدن سے زائد اثاثوں اور سرکاری ٹھیکوں میں مبینہ گھپلوں کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، جبکہ راولپنڈی کی مقامی عدالت نے نیب کی درخواست منظور کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کا راہداری ریمانڈ منظور کیا تھا۔

انتخابات کی تاریخ سے 56 روز قبل شیڈول کا اعلان کردیا جائے گا، الیکشن کمیشن

میاں بیوی کے درمیان اچھا تعلق قائم نہ ہو تو عزت کے ساتھ راہیں جدا کرلیں، طوبیٰ انوار

50 برسوں میں پہلی دفعہ شمالی امریکا میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے آپریشنز بند