طالبان کی نئی حکومت، پچھلے دورِ سے بہتر ہونے کا بیانیہ زمین بوس ہوگیا، ہما بقائی
سیکیورٹی اور پالیسی تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا ہے کہ ’طالبان 2.0‘ کا بیانیہ مکمل طور پر زمین بوس ہوگیا جسے پاکستان میں بہت سے لوگ کی جانب سے اس دعوے کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا کہ طالبان کی نئی حکومت پچھلے دورِ حکومت سے بہتر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہما بقائی نے ادب فیسٹیول میں اپنی کتاب ’کلیکٹڈ ورکس آن فارن افیئرز اینڈ سیکیورٹی پالیسی‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کے دوران خواتین کی حالتِ زار اور ان کے حقوق، لڑکیوں کی تعلیم اور افغان سرزمین کو ریاست پاکستان کے خلاف استعمال کیے جانے پر توجہ دلائی۔
ہما بقائی نے بتایا کہ جب سے طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے افغان بارڈر کے راستے پاکستان میں حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی میں کوئی تسلسل اور مستقل مزاجی نہیں ہے، جس پر ریاست کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہما بقائی نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی ملک بدری کی حمایت کی اور اسے پاکستان کے لیے ایک ’ٹائم بم‘ قرار دیتے ہوئے ایک ’کراچی-کوئٹہ-کابل گٹھ جوڑ‘ کی جانب توجہ دلائی جو نہ صرف اسمگلنگ بلکہ دہشت گردی میں بھی ملوث رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اس گٹھ جوڑ کو بہت سی فنڈنگ بنیادی طور پر کراچی کے ذریعے حاصل ہوتی رہی ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ کوئی بھی ملک غیر قانونی تارکین وطن کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا، ایران نے پہلے دن سے افغان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا اور اسی وجہ سے انہوں نے ان کے لیے ایسے مسائل پیدا نہیں کیے۔
سابق وزیراعظم کے معاون خصوصی اور بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر معید یوسف نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا ایک اچھا فیصلہ ہے، تاہم اسمگلنگ کا مسئلہ ایک چیلنج بنا رہے گا کیونکہ بہت سے پاکستانی بھی اس میں ملوث ہیں، جہاں تک جرائم اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کا تعلق ہے، اس کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اسے غیرقانونی پناہ گزینوں کی ملک بدری کے سارے عمل میں اسٹریٹجک نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان میں پالیسی سازی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اہم مسائل پر اچھی پالیسیاں بنانے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس طرح کی تیاری اکثر غائب ہوتی ہے، اس لیے ملک کے زیادہ تر پالیسی فیصلے کافی بگڑ جاتے ہیں۔
معید یوسف نے کہا کہ فی الحال سیاست اور پولرائزیشن اتنی بڑھ گئی ہے کہ اصل مسائل پر کوئی توجہ نہیں ہے کہ کیا اچھا ہے یا کیا برا ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ ملک میں خاص طور پر طلبہ کے درمیان پالیسی سازی پر بات چیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی سازی اور بین الاقوامی تعلقات جیسے مضامین کو معیشت، ٹیکنالوجی وغیرہ کے ساتھ ملا کر پڑھانے میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ گریجویٹس کے لیے عملی شعبوں میں کارآمد بن سکیں۔