پاکستان

سول ایوارڈز دینے کیلئے انتخاب کے عمل میں شفافیت کی ضرورت ہے، لاہور ہائیکورٹ

ستارہ امتیاز دینے کے لیے وزارت دفاع اور کیبنٹ ڈویژن کو محض تجویز دے دینا درخواست گزار کو اس سول ایوارڈ کا حقدار نہیں بنادیتا، جسٹس جواد حسن

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے گزشتہ روز فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سول ایوارڈ دینے کے لیے محض سفارشات اس کا حقدار نہیں بناتیں، وفاقی حکومت سول ایوارڈز نوازنے کے لیے انتخاب کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ کار وضع کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس جواد حسن نے یہ ریمارکس ڈائریکٹر جنرل فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز، کینٹ/گیریژن ڈائریکٹوریٹ، راولپنڈی کنٹونمنٹ خوشدل خان ملک کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے دیے۔

درخواست گزار نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے کیڈر سے باہر مختلف عہدوں پر اہم ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے حکومتِ پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دیں اور ریاست کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شہریوں کی خدمت کرتے ہوئے بے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔

انہوں نے کہا کہ یوم آزادی پر ایوارڈ دینے کے لیے کابینہ ڈویژن نے دسمبر 2021 میں تمام وزارتوں/ ڈویژنوں سے موزوں افراد کی نامزدگیاں طلب کی، ایف جی ای آئی نے اس مقصد کے لیے دوسروں کے ساتھ درخواست گزار کا نام بھی بھیجا لیکن وزارت دفاع نے ایف جی ای آئی کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی پسند کے افراد کے نام تجویز کیے۔

جسٹس جواد حسن نے دلائل سننے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ستارہ امتیاز دینے کے لیے وزارت دفاع اور کیبنٹ ڈویژن کو محض تجویز دے دینا درخواست گزار کو اس سول ایوارڈ کا حقدار نہیں بنادیتا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ تمام ایوارڈز صدر کی جانب سے دیے گئے آرٹیکل 259 کے تحت ڈیکوریشن ایکٹ 1975 کے مطابق ہوتے ہیں، تاہم جب متعلقہ ایجنسیوں اور حکام سے نام طلب کیے جاتے ہیں تو انہیں پیرنٹ ڈویژن کی جانب سے کیبنٹ ڈویژن کو بھجوایا جاتا ہے، جو صدر کی جانب سے ان کی منظوری سے قبل انہیں حتمی شکل دینے کے لیے متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجتے ہیں، اگر نام پہلے ہی ڈویژن کی جانب سے چھوڑ دیا جاتا ہے اور کیبنٹ ڈویژن کو نہیں بھیجا جاتا تو پھر وہ اس کا حقدار نہیں ہوتا۔

درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار نے وزارت دفاع یا کابینہ ڈویژن سے رجوع نہیں کیا تھا اور 6 ماہ گزر جانے کے بعد یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔

جسٹس جواد حسن نے درخواست مسترد کردی تاہم انہوں نے حکم نامہ سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری وزیراعظم، وزیراعظم آفس، سیکریٹری وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات، سیکریٹری وزارت دفاع، راولپنڈی کینٹ اور ڈائریکٹر جنرل ایف جی ای آئی کو بھیجنے کی ہدایت جاری کی تاکہ ڈیکوریشن ایکٹ 1975 کی دفعات اور قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے متعلقہ ہدایات کے مطابق ایجنسی / اتھارٹی کی طرف سے تجاویز کے عمل کے حوالے سے ایک مناسب طریقہ کار یا معیار طے کیا جائے۔

افغانستان میں ’جائز حکومت‘ آنے کے بعد معاملات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے، نگران وزیراعظم

قیادت چھوڑنے پر سینئر اور ساتھی کرکٹرز کا بابراعظم کے نام پیغام

دنیا میں چین اور امریکا، دونوں کی کامیابی کیلئے گنجائش موجود ہے، شی جن پنگ