اسلام آباد ہائیکورٹ: سائفر کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سائفر کیس میں ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی جہاں عمران خان کے وکلا، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل دیے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قابل دست اندازی جرم پر ایف آئی آر کا اندراج بنتا ہے، وفاقی حکومت نے سیکریٹری داخلہ کو شکایت درج کرنے کی منظوری دی۔
انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں 10 سال سے کم سزا والی دفعہ میں ضمانت ہو سکتی ہے لیکن 10 سال سے زائد سزا والی سیکشن لگی ہو تو وہ ناقابل ضمانت ہے۔
عدالت نے کہا کہ سائفر کے ذریعے جو بھی معلومات آرہی ہیں کیا وہ آگے بڑھائی نہیں کی جا سکتیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایک کیٹگری میں آپ کر سکتے ہیں دوسری کیٹگری میں آپ نہیں کر سکتے، یہ سائفر ٹاپ سیکرٹ تھا اس سے شئیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کی درست تعریف یا تشریح نہیں کی، چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی معلومات عوام تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نہیں تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سائفر آنے کے رولز آف پریکٹس ہوں گے، کچھ ایس او پیز بنائے ہوں گے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سائفر کی دو کیٹگریز ہوتی ہیں جن میں سے ایک کی کمیونی کیشن کی جا سکتی ہے مگر دوسری کیٹگری کی نہیں۔
راجا رضوان عباسی نے کہا کہ یہ سائفر دوسری کیٹگری کا سیکرٹ دستاویز تھا جس کی معلومات عام نہیں کی جا سکتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ خفیہ دستاویزات عام کرنے پر بطور وزیر اعظم چیئرمین پی ٹی آئی کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں، اس جرم کی سزا 14 سال قید یا سزائے موت بنتی ہے۔
ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلیل دی کہ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، ڈپٹی ڈائریکٹر عمران ساجد اور حسیب بن عزیز کا 161 بیان ہے کہ سائفر اسسٹنٹ نعمان کے پاس سائفر آیا۔
انہوں نے کہا کہ شاموں قیصر وزیر اعظم ہاؤس میں سائفر آفیسر ، ڈی ایس پی ایم آفس حسیب گوہر، ساجد محمود ڈی ایس وزیر اعظم آفس اور اعظم خان کا 161 کا بیان ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان کبھی بھی ملزم نہیں تھے بلکہ گواہوں کی فہرست میں اس کا نام تھا، اعظم خان کے لاپتا ہونے کا مقدمہ تھانہ کوہسار میں درج تھا۔
انہوں نے کہا کہ اعظم خان تفتیشی افسر کے سامنے آئے اور متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا اور وہ کچھ دیر کے لیے پیس آف مائنڈ کے لیے کہیں چلے گئے تھے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا بنیادی گواہ کون ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان، اسد مجید، سہیل محمود ہمارے بنیادی گواہ ہیں۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے سائفر اسسٹنٹ نعمان کا 161 کا بیان پڑھنا شروع کیا تو عمران خان کے وکیل نے اعتراض کیا کہ 161 کے بیانات ضمانت کی درخواست میں نہیں پڑھ سکتے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ میں نے چین سمجھنی ہے کہ کس طرح سائفر آتا ہے اور کس طرح جاتا ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر چین ان بیانات میں موجود ہے تو پڑھ لیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ گواہ کے بیان میں واضح ہے یہ سیکرٹ کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ تھا، سیکرٹ دستاویز کی کوئی سرکولیشن نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں نے خفیہ دستاویز لکھا تھا، ریکارڈ صرف سائفر ڈپارٹمنٹ میں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی تقریر اور اعظم خان کا بیان بھی پڑھنا چاہوں گا، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کیا ضرورت ہے پڑھنے کی؟ آپ ریکارڈ دے دیجیے گا میں دیکھ لوں گا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ تین بیانات ماہرین کے بھی شامل ہیں، اسد مجید خان، سہیل محمود کا بیان بطور ماہرین شامل ہے اور سابق ڈی جی امریکا فیصل نیاز ترمذی کا بیان بھی شامل ہے۔
راجا رضوان عباسی نے سماعت کے دوران مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا، جس میں کلبھوشن یادیو کیس میں بھارتی عدالت کے فیصلے کا بھی حوالہ شامل تھا۔
عدالت نے پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ بھارت کا آفیشل سیکریٹ ایکٹ آپ کے پاس ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ 90 فیصد ایکٹ ہمارا اور بھارت کا ایک جیسا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے بھی انہوں نے بھی کچھ ترامیم کی ہیں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ جن مقدمات کے حوالے دیے ان میں زیادہ تر کلاسایفائیڈ ڈاکومنٹس کی معلومات لیک کرنے کے خدشات پر تھے، ان کیسز میں معلومات لیک کرنے کے ثبوت نہیں تھے مگر پھر بھی معلومات لیک ہونے پر سزائیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں تو اعتراف جرم موجود ہے کہ خفیہ دستاویز کی معلومات عام کیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ چالان جمع ہو چکا ہے تو آپ نے گرفتار رکھ کر کیا کرنا ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ فیصلہ جمع کرانا چاہتا ہوں چالان جمع ہو چکا تھا اور ضمانت خارج ہوئ، اگر کسی بیان سے پاکستان کے سپر پاور امریکا سے تعلقات متاثر ہوں تو یقیناً اس کا کسی کو فائدہ بھی ہو گا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی وہ کر رہا ہے جو انتہائی ذمہ دار شخص ہونا چاہیے، اس متعلق معلومات تو وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی شیئر نہیں کر سکتا، یہ کیس بھی نہیں کہ اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر معلومات شیئر کیں۔
راجا رضوان عباسی نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تو اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے دلائل کا آغاز کر دیا اور کہا کہ سائفر 9 مارچ 2022 کو وزیراعظم آفس میں وصول ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر میسج واپس جانے کے حوالے سے کوئی تحریری ایس او پی ہے، جس پر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سائفر جلد از جلد واپس کرنا ہوتا ہے، اگر اس پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلانا تھا تو فوراً بلاتے، چیئرمین پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ جلسے میں سائفر لہرایا اور سیاسی فائدے کے لیے معلومات عام کیں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ 9 مارچ سے 27 مارچ تک کیا ہوا؟ نہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور درخواست گزار کے وکیل نے خود اعتراف کیا کہ سائفر کی معلومات پبلک کی گئی تھیں۔
اس کے ساتھ اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے جوابی دلائل دیے اور اس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے اور جوابی دلائل دیے اور کہا کہا گیا ہے کہ سائفر کی معلومات عام کرنے کا اعتراف کر لیا تو میں قطعاً کسی بات کا اعتراف نہیں کر رہا ہوں۔
لطیف کھوسہ نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے عوام کو کوئی سائفر دکھایا، انہوں نے تو علامتی طور پر ایک کاغذ لہرایا تھا، ڈی کوڈ ہونے والا سائفر تو آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، شہباز شریف اور خواجہ آصف کے پاس بھی گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس پر تو سفارتی سطح پر شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ سردار لطیف کھوسہ نے جوابی دلائل مکمل کرلیے اور سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت مکمل ہوگئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا اور اس کے علاوہ سائفر کیس کے اخراج کی درخواست پر بھی فیصلہ محفوظ کیا۔
عمران خان کو جیل ٹرائل کے خلاف خصوصی عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ہدایت کی کہ وہ سائفر کیس میں اپنے جیل ٹرائل کے خلاف خصوصی عدالت سے رجوع کریں۔
سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جیل ٹرائل سیکیورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، بظاہر جیل ٹرائل کے معاملے پر کوئی بدنیتی نظر نہیں آئی۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم خود اپنی سیکیورٹی کے حوالے متعدد بار خدشات کا اظہار کرچکے، عمران خان کو جیل ٹرائل پر تحفظات ہوں تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اگلے روز یعنی 30 اگست کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کردی تھی جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج اور کیس کی اٹک منتقلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، آئی جی، ڈی جی ایف آئی اے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو درخواست میں فریق بنایا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے وفاقی وزارت قانون کی جانب سے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن چیلنج کیا تھا اور درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت اٹک جیل میں منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن غیر قانونی ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
انہوں نے انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ون کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا اختیار سماعت بھی چیلنج کیا اور کہا تھا کہ انسداد دہشت گری عدالت ون کے جج اس معاملے میں مطلوبہ اہلیت کے بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔