دنیا

زبانوں کی موت، یعنی خزانوں کی موت

بہت سی زبانیں کہانیوں، گیتوں اور تاریخی روایات سے بھرپور ثقافت کےخزانوں سے مالامال ہیں، اگر یہ زبانیں مٹ گئیں تو ان کا انمول خزانہ بھی معدوم ہوجائے گا۔

زبانیں ہی ثقافت کو پیش کرتی ہیں، زبانوں کے بولنے والے اپنی خوشی غمی کی کیفیات کا اظہار انہیں زبانوں کے ذریعے کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کسی خاص ثقافتی رنگ یا خیال کو کسی دوسری زبان میں اسی کیفیت کے ساتھ ترجمہ کرکے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

بہت سی ایسی زبانیں جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں، کہانیوں، گیتوں اور تاریخی روایات سے بھرپور ثقافت کےخزانوں سے مالامال ہیں، لیکن ان کا اگلی نسل تک منتقل ہونا دشوار ہوچکا ہے، اس لیے کہ ان کے پاس تحریری صورت میں کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ زبانیں مٹ گئیں تو یہ انمول خزانہ بھی معدوم ہوجائے گا۔

برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت چھ ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے لگ بھگ تین ہزار اس صدی کے اختتام تک ناپید ہوجائیں گی۔کیونکہ نوّے فیصد زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے کم ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 537 زبانیں ایسی بھی ہیں جن کے بولنے والے پچاس سے بھی کم رہ گئے ہیں، لیکن زیادہ افسوس ناک حالت ان 46 زبانوں کی ہے جو آئندہ چند برسوں میں ختم ہونے والی ہیں کیونکہ انہیں سمجھنے اور بولنے والا صرف ایک ایک انسان باقی ہے۔

چین میں بولی جانے والی مینڈرین زبان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی زبان سمجھی جاتی ہے،انگریزی زبان دوسرے نمبر پر جبکہ  ایتھنولوگ کے مطابق ہندی-اردو زبان چوتھے نمبر پر ہے۔

کیا آپ نے ”کالکوٹی“ کے بارے میں  کبھی سنا ہے؟ یہ دنیا کی ایسی زبانوں میں سے ایک ہے جو متروک ہوتی جارہی ہیں، جسے یونیسکو نے 2011ء میں شناخت کرکے اپنے خطرے سے دوچار زبانوں کے اٹلس میں شامل کیا، اس کے بولنے والے صرف چار ہزار افراد ہیں، جو پاکستان شمال مغربی سرحد کے قریب ایک گاؤں میں مقیم ہیں۔

اُدھر آسٹریلیا کی تمام 231 قدیم زبانیں متروک ہوتی جارہی ہیں، نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جب ریسرچر آسٹریلیا کے جنوبی حصے میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک زبان جس کا نام ”مگاٹی کی“ معلوم ہوا، کے بولنے والے صرف تین افراد تھے، جبکہ ایک اور زبان ”یاوورو“ کے بولنے والے بھی تین ہی افراد تھے۔

برٹش کولمبیا، اوریگون اور واشنگٹن  سمیت شمالی امریکا کے شمال مغرب میں واقعے خطےمیں 55 زبانیں انگریزی کے غلبے کی وجہ سے اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اوریگون میں بہت سی زبانیں ایسی ہیں جنہیں بولنے اور سمجھنے والا ایک ہی فرد دنیا میں باقی بچا ہے۔

بھاشا ریسرچ اینڈ پبلی کیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے پچاس سالوں میں ہندوستان میں بولی جانے والی دو سو زبانیں مٹ گئی ہیں۔ اس کی وجہ شہروں کی جانب نقل مکانی اور خانہ بدوش قبائل اپنی روایتی زبان بولنے سے احتراز کرنے لگے ہیں۔ اس ادارے کی ریسرچ کے مطابق 230 زبانیں مٹ چکی ہیں، جبکہ 870 مٹنے کے قریب ہیں۔

اس ادارے کے سربراہ اور ریسرچر گنیش دیوی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں گھومنے پھرنے والے عطائی، مستقبل بتانے والے جوگی اور سپیرے چھوٹی چھوٹی زبانیں بولتے تھے جو اب مٹ چکی ہیں۔ مٹنے والی زبانیں بولنے والی افراد کی کل تعداد تقریباً پانچ کروڑ تھی۔ یاد رہے کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق ہندی اور انگریزی سرکاری زبانیں ہیں جبکہ صوبائی سطح پر اردو اور بنگالی سمیت بائیس زبانیں زیر استعمال ہیں۔

گنیش دیوی نے اے ایف پی کو بتایا کہ 480 قبائلی زبانیں اس وقت بھی انڈیا میں بولی جاتی ہیں، جہاں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی بدولت دنیا سے منسلک ہونے کی سہولت کے میسر آنے کے بعد اب ہندی اور انگلش کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”مجھے سخت تشویش ہے کہ  ایک بڑی تعداد میں زبانیں تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوتی جارہی  ہیں۔“

گنیش دیوی کی ٹیم میں پورے انڈیا سے تین ہزار رضاکار شامل ہیں، جو مختلف برادریوں اور ملک کے دوردراز علاقوں میں مقیم ایک ارب سے زیادہ کی تعداد میں لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ  اس سروے کے ذریعے زندہ یا آخری سانسیں لیتی ہوئی زبانوں کی ایک دستاویز تیار کی جاسکے۔ یہ ٹیم ایسی زبانوں کی موجودگی کے شواہد  بھی جمع کررہی ہے جنہیں کسی برادری کے لوک گیتوں اور کہانیوں میں استعمال کیا جاتا ہو۔

ایک جانب ہندوستان میں سینکڑوں زبانیں جدید طرز زندگی کے باعث ہندی اور انگریزی کی مضبوط ہوتی گرفت کے باعث خاتمے کے قریب ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب میں  الحمیریہ زبان بولنے والے افراد اپنے ملک کی سرکاری زبان سے ہی ناواقف ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق صدیوں سے آباد چلے آنے والے بعض قبائل اپنی قبائلی روایات کے ساتھ اپنی زبانوں کوبھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں ”الحمیریہ“ زبان بولنے والے 50 ہزار باشندے آج بھی عربی زبان سے واقف نہیں۔ ان کی مادری زبان "حمیریہ" کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ "قومِ عاد" کی زبان تھی۔

اسی طرح ”المہرہ“ قبیلے کے لوگ اپنی قبائلی زبان ”مہرہ“ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ قبیلے کے لوگ اسی زبان کو تحریر و تقریر میں ذریعہ اظہار کے طورپراستعمال کرتے ہیں۔ تاہم مہرہ قبیلے کے افراد عربی زبان بھی جانتے ہیں لیکن وہ عربی کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ”المھرہ“ قبیلے کے ایک رہنما الشیخ ابن علیان نے بتایا کہ ”ماہرین لسانیات اور مؤرخین المہرہ اور حمیریہ زبانوں کو قدیم ترین زبانوں میں شمار کرتے ہیں۔“ مہرہ قبائلی رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی زبان کوئی 3000 سال پرانی ہے۔