دنیا

افغانستان سے امریکی انخلا نے داعش کو مضبوط کیا، سابق سربراہ سینٹرل کمانڈ

انخلا کے بعد اب ہمارے لیے دہشت گردوں سے لڑنا کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے، جنرل کینتھ فرینک میکنزی

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل کینتھ فرینک میکنزی نے گزشتہ ہفتے ٹیلی ویژن انٹرویوز کے دوران کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کالعدم عسکریت پسند تنظیم داعش، القاعدہ سے زیادہ بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل کمانڈ کے موجودہ سربراہ جنرل ایرک کریلا نے بھی ایک حالیہ انٹرویو میں ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ داعش 6 ماہ کےا ندر امریکا کے خلاف ’بیرونی آپریشن‘ کر سکتی ہے۔

گزشتہ برس اپریل میں ریٹائر ہونے والے کینتھ فرینک میکنزی افغانستان سے انخلا کے دوران سینٹرل کمانڈ کے سربراہ رہے، جو مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں میں آپریشنز کے لیے ذمہ دار ہے، ان کی کمان میں افغانستان اور پاکستان دونوں شامل تھے۔

جنرل ایرک کریلا کے انتباہ سے متعلق سوال کے جواب میں کینتھ فرینک میکنزی نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ کالعدم تنظیم داعش ہمیشہ سے امریکیوں پر ان کی سرزمین پر حملہ کرنے کی خواہاں ہے، یہ ان کا ایک بنیادی اصول اور بنیادی عقیدہ ہے، افغانستان سے ہمارے انخلا کے بعد اب ہمارے لیے دہشت گردوں سے لڑنا کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔

’فوکس نیوز‘ اور ’سی بی ایس‘ کو دیے گئے انٹرویوز میں جنرل کینتھ فرینک میکنزی نے کہا کہ اگست 2021 کے انخلا کے بعد سے القاعدہ کمزور پڑ گئی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ داعش، خاص طور پر افغانستان میں ان جگہوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے جہاں حکومت اپنا اثر نہیں رکھتی، مجھے یقین ہے کہ وہ وہاں اپنی قوت کو بڑھا رہے ہیں۔

سینٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ نے 11 ستمبر کے حملوں کی 22 ویں برسی کے موقع پر ’فوکس نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کو تاریخ ایک خطرناک غلطی کے طور پر دیکھے گی جس نے عسکریت پسندوں کو ملک میں دوبارہ قدم جمانے کی اجازت دی۔

جنرل کینتھ فرینک میکنزی نے کہا کہ انہیں افغانستان سے امریکی انخلا پر بہت افسوس ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارے میں بہت افسوس ہے کہ یہ سب کیسے ختم ہوا، مجھے بنیادی طور پر اس فیصلے پر افسوس ہے جو میرے خیال میں ایک غلط فیصلہ تھا۔

گزشتہ برس مارچ میں انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے فیصلے پر انہیں ہمیشہ افسوس رہے گا، ایک ایسا فیصلہ جس نے طالبان کو فوری طور پر دوبارہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کا موقع دیا۔

جوبائیڈن کا پیغام

دوسری جانب صدر جو بائیڈن نے 9/11 کی برسی پر جاری پیغام میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اندرون اور بیرون ملک نفرت اور انتہا پسندی اور سیاسی انتشار کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف متحد رہیں۔

11 ستمبر 2001 کو دہشت گردوں نے امریکی سرزمین پر تاریخ کے بدترین حملے میں تقریباً 3 ہزار افراد کو ہلاک اور 6 ہزار سے زائد افراد کو زخمی کردیا تھا۔

گزشتہ ماہ نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا جس میں داعش اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی گئی، اس میں مزید کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور طالبان سے وابستہ دیگر گروہ داعش کو نیٹو کے چھوڑے گئے ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش اور اس سے وابستہ کالعدم ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں انتشار کا شکار علاقوں اور پڑوسی ممالک میں سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں متواتر حملے کیے جا چکے ہیں جبکہ داعش نے بھی حال ہی میں پاکستان کے اندر حملے کیے ہیں، ان حملوں میں رواں برس جولائی میں جے یو آئی (ف) کے کنونشن پر حملہ بھی شامل ہے جس میں 40 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حال ہی میں کہا کہ دہشت گرد گروہ اب امریکی افواج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے کوآرڈینیٹر جان کربی نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ امریکا، افغانستان میں 7 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار اور ساز و سامان چھوڑ گیا ہے اور اب عسکریت پسند گروہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی افواج کا کوئی سامان وہاں نہیں رہ گیا تھا، جب ہم نے انخلا کی کوششیں مکمل کیں تو ہوائی اڈے پر کچھ معمولی سامان اور کچھ طیارے موجود تھے لیکن ہمارے وہاں سے روانہ ہونے تک وہ سب چیزیں ناقابل استعمال ہوچکی ہیں۔

نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ (ن) سیاسی مقبولیت میں اضافے کیلئے پُراعتماد

’مائی ری‘ میں کم عمر بیوی کو حاملہ دکھانے پر لوگ برہم

ریپبلیکن اراکین کا اسپیکر سے صدر بائیڈن کے مواخذے کا مطالبہ