نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے، شہباز شریف
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے۔
لندن میں پارٹی قائد نواز شریف اور خواجہ آصف سمیت دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےشہباز شریف نے کہا کہ پارٹی کے ساتھ بھرپور مشاورت کے ساتھ فیصلہ ہوا ہے، اس کے مطابق 21 اکتوبر کو قائد نواز شریف واپس وطن پہنچیں گے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) کے صدرشہباز شریف کا اہم بیان جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’معمار پاکستان اور رہبر عوام نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس تشریف لائیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’محسن عوام نواز شریف کا وطن آمد پر فقید المثال استقبال کیا جائے گا‘۔
لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کارنامہ سرانجام دیا، سی پیک کے معمار ہیں، پاکستان میں 20،20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا سہرا نواز شریف کے سر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت نہ بنانے کے عوض نواز شریف کو جس پیکج کی پیش کش کی گئی اس کی معذرت کرلی کہ پاکستان کا مفاد 5 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ جس طریقے سے 2013 سے 2018 کے درمیان جو ترقی پاکستان کی صنعت، حرفت اور زراعت میں ہو رہی تھی اگر 2018 کے جھرلو انتخابات کے نتیجے میں وہ تسلسل نہ ٹوٹتا تو آج پاکستان ترقی کے میدان میں بہت آگے ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور پورا پاکستان ان کا فقیدالمثال استقبال کرے گا اور لاہور جائیں گے، پورا پاکستان نواز شریف کا منتظر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک اور معیشت دوبارہ اسی طرح ترقی کرے گی جہاں 2017 میں پاکستان کو نواز شریف نے چھوڑا تھا، جب ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں سازش کے تحت ان کو اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کو اقتدار سے محروم نہیں ہوئے بلکہ پاکستان کے عوام کوترقی اور خوش حالی سے محروم کردیے گئے۔
ان سے سوال کیا گیا کہ سازش کرنے والے عناصر کا احتساب ہوگا تو انہوں نے کہا کہ اس پر پاکستان پہنچ کر بات ہوگا۔
اس موقع پر مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال 4 دن میں ریٹائر ہوں گے تو ان کے فیصلوں کو کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ان کی کوئی لیگسی نہیں ہے، ان کو ایک عمرانڈو جج کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’انہوں نے جو فیصلے دیے اور ان کے چیف جسٹس کے دور میں عدلیہ کا وقار جس طرح ملیامیٹ اور پامال ہوا، میرے خیال میں وہ اسی برادری میں شامل ہوگئے ہیں جو جسٹس منیر سے شروع ہوئی تھی، نسیم حسن شاہ، کھوسہ اور ثاقب نثار کی برادری میں شامل ہوگئے ہیں اور انہوں نے انصاف پامال کیا ہے، تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی‘۔
شہباز شریف نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی جانب سے انتخابات پر تحفظات کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا آئینی فرض ہے اور تقاضا بھی ہے، ہم نے آئینی مدت پوری کرکے اسمبلی تحلیل کی، اب نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور امید ہے الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں پاکستان میں اپنے قائد کا استقبال کروں گا۔
رانا مقبول میرے دکھ سکھ کے ساتھی تھے، نواز شریف
میڈیا سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے پارٹی کے سینیٹر رانا مقبول کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے اور قابل سول سرونٹ بھی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ حق پر رہ کر میرے ساتھ جیل بھی گئے، جب وہ آئی جی پنجاب تھے تو انہیں گرفتار کیا گیا تھا لیکن جیل بڑی بہادری سے کاٹی۔
نواز شریف نے کہا کہ وہ میرے دکھ سکھ کے ساتھی تھے، ان کے انتقال پر بہت دکھ ہوا، اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے گھر والوں کو صبر عطا کرے۔
اس سے قبل 25 اگست کو بھی لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے اور انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد طے پایا ہے کہ ہمارے قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے۔
اگست کے اوائل میں بھی خبریں آئی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد جلد واپس آرہے ہیں، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف جلد پاکستان آئیں گے۔
شہباز شریف نے 10 اگست کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ نواز شریف ستمبر میں واپس آئیں گے۔
یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
نواز شریف جیل میں صحت کی خرابی کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے تھے لیکن وہ تاحال پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے خلاف پاکستان میں متعدد مقدمات زیر التوا ہیں۔
نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئےاس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 4 ہفتوں یا ان کے ڈاکٹر کی جانب سےان کی صحت یابی کی تصدیق کے بعد وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔
بعد ازاں گزشتہ سال اگست میں نواز شریف نے برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے ’طبی بنیادوں پر‘ ان کے ملک میں قیام میں توسیع کی اجازت دینے سے انکار پر امیگریشن ٹریبیونل میں درخواست دی تھی۔
جب تک ٹریبونل نواز شریف کی درخواست پر اپنا فیصلہ نہیں دے دیتا نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں، ان کا پاسپورٹ فروری 2021 میں ایکسپائر ہوچکا تھا تاہم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بننے کے بعد ان کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کی مدت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت لندن میں مقیم ہے جس پر پارٹی کے مختلف رہنماؤں نے بھی کہا تھا کہ اعلیٰ قیادت کو واپس آنا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی لندن میں موجودگی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہی، نگراں سیٹ اپ کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد شہباز شریف لندن پہنچ گئے اور بڑے شریف اور نواز شریف 2019 سے ہی لندن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رکن نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی قیادت کی ملک سے روانگی کی جانب توجہ مبذول کرانا غلط ہے، سابق وزیر اعظم اور پارٹی رہنما کی حیثیت سے شہباز شریف کو فوری واپس آنا چاہیے، انہیں یہاں آکر لوگوں کو بتانا ہوگا کہ وہ آج ان مشکلات کا کیوں سامنا کر رہے ہیں، اس وقت ملک چھوڑ کر جانا کوئی ذمہ دارانہ عمل نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم (پاکستان میں موجود پارٹی قیادت) یہاں ان چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہم نے محدود وقت میں حاصل کیں، انہیں بھی کرنی چاہیے، کوئی بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ملک میں عوام کے سوالات کا سامنا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم 16 ماہ حکومت میں تھے، ہمیں عوام کو بتانا چاہیے کہ ہماری کارکردگی کیا تھی، ہم نے آج عوام کے مسائل حل کیوں نہیں کیے؟ ہم اپنے آپ کو حقیقت سے الگ نہیں کر سکتے، اگر ہم آج لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں دیں گے تو وہ ہمیں بیلٹ بکس میں جواب دیں گے، یہ کرنا ضروری ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے چند دیگر رہنماؤں نے کہا تھا کہ آنے والے مہینوں میں پارٹی کے انتخابی بیانیے کے حوالے سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے تاحال کوئی واضح سمت نہیں ہے۔
تاہم خواجہ آصف سمیت سینئر رہنماؤں کو یقین ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی سے ان کی پارٹی ان طوفانوں سے باہر نکل آئے گی۔