اسرائیل نے بحرین میں سفارتخانہ کھول لیا، تجارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق
اسرائیل نے تعلقات معمول پر آنے کے 3 برس بعد گزشتہ روز بحرین میں باضابطہ طور پر اپنا سفارتخانہ کھول لیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے بحرین کے دورے کے دوران سفارتی مشن کی سرکاری افتتاحی تقریب میں شرکت کی، جہاں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔
ایلی کوہن نے اسرائیل کے نئے سفارت خانے کا افتتاح کرنے کی تقریب کے دوران کہا کہ بحرینی ہم منصب اور میں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں براہ راست پروازوں کی تعداد، سیاحت، تجارتی حجم، سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
بحرین کے دارالحکومت مناما میں قائم کیا گیا سفارت خانہ اسرائیل کے پہلے سفارت خانے کی جگہ لے گا جو 2021 میں کھولا گیا تھا، جس سے ایک سال قبل اس نے بحرین کے ساتھ امریکا کی ثالثی میں ابراہم معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات اور مراکش کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے تھے۔
گزشتہ روز تقریب میں بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی نے شرکت کی، جنہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون میں نیا سفارت خانہ ایک اہم کردار ادا کرے گا۔
عبداللطیف الزیانی نے کہا کہ گزشتہ روز ایلی کوہن کے ساتھ ان کی بات چیت کے نتیجے میں معیشت، سرمایہ کاری، تجارت اور دیگر شعبوں سمیت وسیع ترین شعبوں میں تعلقات کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا۔
ایلی کوہن اتوار کو ہائی ٹیک، لاجسٹکس اور ریئل اسٹیٹ شعبے میں کام کرنے والی 30 سے زائد کمپنیوں کے تجارتی وفد کے ہمراہ بحرین پہنچے تھے۔
قبل ازیں گزشتہ روز انہوں نے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ سے ملاقات کی اور آزاد تجارتی معاہدے کو آگے بڑھانے کی اہمیت اور اسرائیل اور بحرین کے نوجوانوں کے درمیان تعلق کے فروغ کے لیے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔
ایلی کوہن نے ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر پوسٹ کیا کہ ہم خطے میں امن اور معمول کے دائرے کو دیگر ریاستوں تک پھیلانے کے منتظر ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ اب مستحکم تعلقات کے باوجود بحرین اور متحدہ عرب امارات نے رواں برس دیگر خلیجی عرب ریاستوں کی طرح اس کے خلاف مذمت کا سلسلہ جاری رکھا۔
یروشلم میں مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر چھاپے اسرائیل کے ان اقدامات میں شامل تھے جس سے خلیج میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
دریں اثنا ایلی کوہن کے دورہ کے ساتھ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر آنے والے معاہدے کے بارے میں قیاس آرائیوں بھی جارہی ہیں، جو کہ ابراہم معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔