دنیا

بھارت: استانی کی نگرانی میں مسلمان طالب علم کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو وائرل

اسکول ٹیچر کلاس روم میں موجود طلبہ کو اپنے ہم جماعت مسلم طالب علم کو تھپڑ مارنے کا کہتی دکھائی رہی ہیں۔

بھارت کی ایک خاتون اسکول ٹیچر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ کلاس روم میں موجود طلبہ کو اپنے ہم جماعت مسلم طالب علم کو تھپڑ مارنے کا کہتی دکھائی رہی ہیں۔

سماجی پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر گزشتہ روز سے ایک ویڈیو گردش کررہی ہے جس میں خاتون اسکول ٹیچر کے کہنے پر مسلمان طالب علم کو ان کے ہم جماعت طلبہ تھپڑ مار رہے ہیں جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ اسکول ٹیچر مبینہ طور پر بچوں کو نفرت کرنے پر اکسا رہی ہیں۔

ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کی عمر 7 سے 10 کے درمیان ہیں اور وہ بھارت کے کسی پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یہ ویڈیو بھارتی ریاست اترپردیش کی ہے جہاں ترپتا تیاگی نامی اسکول ٹیچر نے 7 سالہ محمد التمش کو سزا کے طور پر کھڑا کیا ہوا ہے اور وہ نیچے بیٹھے دیگر بچوں کو کہتی ہیں کہ مسلم طالب علم کو زور دار تھپڑ رسید کریں۔

خاتون ٹیچر اپنی ویڈیو میں کہتی ہیں کہ ’تمام مسلمانوں کو یہاں سے چلے جانا چاہیے‘

جس پر بظاہر ویڈیو بنانے والا شخص اسکول ٹیچر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں، اس سے تعلیم خراب ہورہی ہے۔‘

ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جب ایک بچہ محمد التمش کو تھپڑ رسید کرتا ہے تو اسکول ٹیچر کہتی ہیں کہ ہلکا تھپڑ نہیں بلکہ زور دار تھپڑ رسید کریں جس کے بعد بچہ ایک بار پھر مسلم طالب علم کی کمر پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔

دوسری جانب 7 سالہ محمد التمش سب کے سامنے زاروقطار رو رہا ہے اور انتہائی خوفزدہ دکھائی دے رہا ہے۔

بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں مسلم آبادی 20 فیصد ہے، یعنی ریاست میں 23 کروڑ 50 لاکھ مسلم بستے ہیں۔

محمد التمش کے والدین نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ 24 اگست کو پیش آیا تھا، ان کا بیٹا مظفر نگر شہر سے 30 کلومیٹر دور کبا پور گاؤں کے نیہا پبلک اسکول میں پڑھنے جاتا ہے۔

محمد التمش کی والدہ روبینہ نے بتایا کہ ’کل میرا بیٹا روتے ہوئے گھر آیا، وہ انتہائی صدمے سے دوچار تھا، کیا آپ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں؟‘

متاثرہ مسلم طالب کے والد محمد ارشاد کے مطابق خاتون ٹیچر نے جماعت کے تمام بچوں کو کہا تھا کہ وہ ایک ایک کرکے میرے بیٹے کو تھپڑ ماریں۔ ’

والد کا کہنا تھا کہ ’ٹیچر کا مؤقف ہے کہ میرے بیٹے نے سبق یاد نہیں کیا تھا اس لیے انہوں نے ایسا سلوک کیا۔

42 سالہ محمد ارشاد نے بتایا کہ ’میرا بیٹا پڑھائی میں ذہین ہے، وہ ٹیوشن پڑھنے بھی جاتا ہے، سمجھ نہیں آتا کہ اسکول ٹیچر نے میرے بچے کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا، ایسا لگتا ہے کہ ٹیچر نفرت سے بھری ہوئی ہیں‘۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی پولیس نے سوشل میڈیا پر لوگوں سے ویڈیو شیئر نہ کرنے کی درخواست کی ہے جس کے باعث بہت سے صارفین اسے اپنے اکاؤنٹس سے ڈیلیٹ کر چکے ہیں۔

محمد ارشاد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کے ساتھ ناروا سلوک اور توہین آمیز رویہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت کا نتیجہ ہے۔

بچے کی والدہ روبینہ نے الزام عائد کیا کہ ٹیچر روزانہ بچوں کو اپنے ہم جماعت ساتھیوں کو تھپڑ مارنے کا کہتی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف چند روز قبل ان کے خاندان کے ایک اور طالب علم کو اپنے سبق یاد نہ کرنے پر اسی طرح کے سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ والد کا کہنا ہے کہ اگرچہ خاتون ٹیچر نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے اور انہوں نے اپنے رویے پر معافی بھی مانگ لی ہے لیکن وہ اپنے بیٹےکو کسی دوسرے اسکول میں داخل کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسکول ٹیچر کہتی ہیں کہ وہ آئندہ طلبہ کے ساتھ بُرا سلوک نہیں کریں گی، لیکن میں اپنے بچے کو ایسے اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کروانا چاہتا جہاں بچوں کو نفرت کرنے پر اکسایا جائے۔

پولیس کی کارروائی

دوسری جانب پولیس افسرکا کہنا ہے کہ بچے اور والدین کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا۔

ان کے مطابق اسکول میں علاقے کے ہندو اور مسلم گھرانے کے بچے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔

پولیس کے مطابق واقعے کی تحقیقات کے بعد اسکول انتظامیہ اور استانی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والا لڑکا مسلمان ہے، خاتون ٹیچر نے ریاضی کے ٹیبل نہ سیکھنے پر کلاس میں موجود دیگر طالب علموں کو لڑکے کو تھپڑ مارنے کو کہا اور اس حوالے سے اسکول کی پرنسپل سے بھی بات کی ہے۔

پولیس نے تصدیق کی ہے کہ خاتون ٹیچر نے تعصبانہ جملے بھی استعمال کیے۔

سماجی پلیٹ فارم پر ویڈیو گردش کے بعد سوشل میڈیا صارفین ٹیچر کے توہین آمیز رویے پر غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں، جبکہ کئی صارفین اسکولوں میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا پر تشویش کا بھی اظہار کررہے ہیں۔

خاتون ٹیچر کا بیان

مسلم بچے سے توہین آمیز رویہ کرنے والی خاتون ٹیچر کا کہنا ہے کہ ویڈیو کو ایڈٹ کرکے وائرل کیا گیا ہے، میں نے جو بات کہی تھی وہ ساری بات کاٹ دی گئی اور صرف مسلمانوں کے خلاف کی گئی بات کو شامل کیا گیا ہے۔

خاتون ٹیچر نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بچوں کو نہیں بولنا چاہیے تھا کہ وہ تھپڑ ماریں، میں مانتی ہوں کہ میری غلطی ہے، لیکن میری یہ نیت نہیں تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مجھ سے کرسی سے اٹھا نہیں جارہا تھا، اس لیے بچوں کو سزا دینے اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھانا تھا، میں مجبور تھی، اس لیے میں نے ایک دو بچوں سے تھپڑ لگوا دیے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’بچے کے والدین کا بھی مطالبہ تھا کہ بچے پر سکتی کریں اس لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ ’

بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ توہین آمیز رویے کا واقعہ نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل بھارتی ریاست کرناٹکا میں کلاس کے دوران پروفیسر نے مسلمان طالب کو ’دہشت گرد‘ کہا تھا۔

نومبر 2022 میں ایک ویڈیو گردش کررہی تھی جس میں دیکھا گیا کہ پروفیسر مسلمان طالب کو دہشت گرد کہتا ہے جس کے بعد مسلمان طالب نے انہیں کھری کھری سنا دی تھی۔

مسلمان طالب علم نے کہا تھا کہ ’یہ مذاق نہیں ہے، اس ملک میں مسلمان ہونا اور روزانہ اس صورتحال کا سامنا کرنا مذاق نہیں ہے۔‘

ویڈیو میں نظر آنے والے ٹیچر مسلمان طالب علم سے کہتے ہیں کہ ’آپ میرے بیٹے کی طرح ہیں‘، جس پر نوجوان طالب علم کہتا ہے کہ ’کیا آپ اپنے بیٹے سے بھی اس طرح بات کریں گے؟ کیا آپ اپنے بیٹے کو دہشت گرد کے نام سے پکاریں گے؟‘

یہ واقعہ اڈپی میں منی پال انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پیش آیا تھا، اس واقعے کے بعد طالب علم کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے پر ٹیچر کو معطل کردیا گیا تھا۔

بھارت: دوران کلاس ’دہشت گرد‘ کہنے پر مسلمان طالب علم نے پروفیسر کو کھری کھری سنا دی

یو اے ای میں اسلاموفوبیا کے حامل بھارتی مشکلات کا شکار، سابق بھارتی سفیر کی صفائیاں

'بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا ہے'