پاکستان

حسان نیازی کو ملٹری کے حوالے کر دیا گیا، لاہور ہائیکورٹ میں پولیس کی رپورٹ جمع

حسان نیازی کی حراست قانونی ہے، درخواست گزار کے وکیل کے الزامات کو مسترد کرتا ہوں، سرکاری وکیل
|

لاہور ہائی کورٹ میں رہنما پی ٹی آئی اور عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران جمع کروائی گئی پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حسان نیازی کو انویسٹی گیشن اور ٹرائل کے لیے ملٹری کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس تنویر سلطان نے حسان خان نیازی کی بازیابی کے لیے ان کے والد حفیظ اللہ نیازی کی درخواست پر سماعت کی۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ حسان نیازی کو پولیس نے 13 اگست کو ایبٹ آباد سے گرفتار کیا ہے، جو 9 اور 10 مئی کے مظاہروں کے بعد سے روپوش تھے۔

ان رپورٹس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے وفاق اور خیبرپختونخوا کی حکومت سے ان کی گرفتاری کے بارے میں تفصیلات طلب کیں اور 18 اگست (آج) اسے سماعت کے لیے مقرر کیا۔

پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے پشاور ہائی کورٹ کو بتایا کہ ان کے مؤکل کی گرفتاری کے بعد سے ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔

اسی طرح، لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ریس کورس پولیس اسٹیشن کو ہدایت جاری کی تھیں کہ حسان نیازی کو زمان پارک کے باہر پولیس کی گاڑیاں نذر آتش کرنے کے مقدمے میں مفرور قرار دیا جائے جبکہ جناح ہاؤس حملے میں ان کی گرفتاری کے بعد کارروائی معطل کر دی تھی۔

15 اگست کو حفیظ اللہ نیازی نے اپنے بیٹے حسان نیازی کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروائی تھی، جس پر آج سماعت ہوئی۔

17 اگست کو ملٹری حکام نے پولیس کو خط لکھ کر درخواست کی کہ حسان نیازی کو ٹرائل کے لیے ملٹری کے حوالے کیا جائے۔

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی نے مذکورہ خط دیکھا ہے، جو بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر نے سرور روڈ کے انچارج انویسٹی گیشن محمد سرور کو لکھا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ 9 مئی 2023 کو جناح ہاؤس، لاہور کنٹونمنٹ میں ہونے والے واقعے میں ملوث حسان نیازی پولیس کی حراست میں ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق فوجی حکام کو انکشاف ہوا کہ حسان نیازی آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعہ 2 (ون) (ڈی) کے ساتھ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کی دفعہ 59 (4) (سول جرائم) کے تحت جرائم میں ملوث پایا گیا ہے، جو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ’کورٹ مارشل‘ کے دائرہ کار میں قابلِ سزا جرم/الزامات ہیں۔

مزید کہا کہ لہٰذا فوجی حکام کی طرف سے مشتبہ (…) سے کورٹ مارشل کے ذریعے پوچھ گچھ، تفتیش اور مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

خط میں سرور پولیس اسٹیشن سے مزید درخواست کی گئی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 549 (3) کے تحت ملزم کو ملٹری حکام کے حوالے کیا جائے تاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت تفتیش اور اس کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کورٹ مارشل کے ذریعے ٹرائل کیا جاسکے۔

آج پولیس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کروایا، پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حسان خان نیازی جناح ہاؤس حملہ کیس میں نامزد ہیں اور وہ مرکزی ملزمان میں شامل ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پولیس نے قانونی کارروائی مکمل کی اور حسان نیازی کو اشتہاری قرار دلوایا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے حسان نیازی کو خیبر پختونخوا سے گرفتار کیا۔

رپورٹ کے مطابق حسان نیازی کو کمانڈنگ افسر کی درخواست پر ٹرائل کے لیے ملٹری کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

سماعت

وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ حسان نیازی کو ملٹری کے حوالے کردیا گیا ہے، سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ حسان نیازی جناح ہاؤس حملہ کیس میں نامزد ہیں اور مرکزی ملزم ہیں۔

وکیل درخواست گزار نے دلائل دیے کہ حسان نیازی کو عدالت کے ذریعے ملٹری کے حوالے کرنا چاہیے تھا، مگر ایس ایچ او نے ایسا نہیں کیا اور قانون کے برعکس غلط کردار ادا کیا۔

وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ حسان نیازی کو 13 اگست کو گرفتار کیا گیا، ان کا راہداری ریمانڈ کسی عدالت سے نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت، ایس ایچ او کو بلوا کر پوچھے اس نے ایسا غیر قانونی اقدام کیوں کیا۔

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے سوال پوچھا کہ اب آپ عدالت سے کیا استدعا کرنا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ پولیس نے کل کی سماعت کے فوری بعد غیر قانونی طور پر حسان نیازی کو ملٹری کے حوالے کیا۔

وکیل نے استدعا کی کہ عدالت اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے، ان کا مزید کہنا تھا کہ والد اور بیٹے کی ملاقات کروائی جائے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ باپ بیٹے کی ملاقات پر سرکاری وکیل کو اعتراض تو نہیں ہے، جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ رولز اینڈ ریگولیشن دیکھنا پڑیں گے۔

عدالت نے حسان نیازی کی ان کے والد سے ملاقات کے لیے سرکاری وکیل کو مہلت دے دی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ متعلقہ اتھارٹی سے پوچھ کر بتائیں باپ بیٹے کی ملاقات ہوسکتی ہے؟

سرکاری وکیل نے مؤقف اپنایا کہ حسان نیازی کی حراست قانونی ہے، درخواست گزار کے وکیل کے ان الزامات کو مسترد کرتا ہوں۔

بعد ازاں، عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کی استدعا پر سماعت 2 بجے تک ملتوی کی۔

واضح رہے کہ 20 جون کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کو پیش آئے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ سے متعلق مقدمات میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، حسان خان نیازی اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔

تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ مقدمے میں نامزد افراد اپنی گرفتاری کے خوف سے جان بوجھ کر چھپے ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔

مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی میں ملوث 1900 مشتعل مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

10 سالہ پاکستانی نژاد برطانوی لڑکی کی لاش ملنے کے بعد مشتبہ افراد کی تلاش

نگران حکومت کے ابتدائی دو روز میں زندگی گزارنے کی لاگت میں بڑا اضافہ

بھارت سے کشمیری انسانی حقوق کے محافظوں کو رہا کرنے کا مطالبہ