پاکستان

سینیٹرز نے ریویو ایکٹ کالعدم قرار دینا ’غیر آئینی‘، پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت’ قرار دے دیا

8 پارٹیوں کے سینیٹرز نے اعلامیے پر دستخط کیے جس میں الزام لگایا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کی آزادی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

سینیٹ میں قائد ایوان اسحٰق ڈار نے 8 مختلف جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ اور ’پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت‘ قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کے روز جاری کردہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے سینیٹرز نے ایک اعلامیے پر دستخط کیے جس میں الزام لگایا گیا کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی آزادی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

اتوار کے روز جاری ہونے والے اعلامیے کے ذریعے قانون سازوں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کے ایک روز بعد ہی گزشتہ کئی ہفتوں سے محفوظ کیا گیا فیصلہ کیوں جاری کیا۔

اسحٰق ڈار اور مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی، جے یو آئی ف کے عبدالغفور حیدری، بلوچستان عوامی پارٹی کے منظور احمد کاکڑ، نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے شفیق ترین، عوامی نیشنل پارٹی کے ہدایت اللہ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سینیٹر محمد قاسم نے اعلامیہ پر دستخط کیے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ آئین ریاستی اداروں کی حدود/اختیارات کی واضح طور پر نشاندہی کرتا ہے، کہا گیا کہ صرف پارلیمنٹ ہی قانون سازی کر سکتی ہے اور سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کہ عدالت عظمیٰ کے رولز پارلیمنٹ کے ایکٹ سے بالاتر ہیں، غیر آئینی اور بدقسمتی ہیں، عدالت کو پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔

دوسری جانب سینیٹ میں رواں ہفتے کے دوران بھی اس معاملے پر گرما گرم بحث ہو سکتی ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے تحریک التوا جمع کرائی جس میں ایوان بالا پر زور دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے اس حکم نامے کے اثرات پر بحث کرے جس نے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کیا۔

11 اگست کو پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی کی تحلیل کے ایک روز بعد سپریم کورٹ نے جون 2023 سے محفوظ فیصلہ سنایا۔

تحریک التوا کے مطابق یہ اقدام عدالت کی جانب سے ’اچھی نیت‘ کی عکاسی نہیں کرتا جب کہ اس نے ’پارلیمنٹ کے اختیارات کو کم کیا‘، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ سینیٹ کو اس معاملے پر فوری بحث کرنی چاہیے اور تضحیک کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کی اس سے بڑی توہین نہیں ہو سکتی کہ تین جج نہ صرف ایک ایسے قانون کو کالعدم قرار دیں جو ان کے قوانین کے مطابق نہ ہو بلکہ پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی سے روکے۔

عدالتی حکم نامہ یہ تاثر دیتا ہے کہ سپریم کورٹ کے قوانین قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے اختیار سے بالاتر ہیں۔

سات نکاتی تحریک میں واضح کیا گیا کہ کلیدی قانون سازی کو پارلیمنٹ کے 442 اراکین نے منظور کیا اور اس کا مقصد آرٹیکل 10-اے کے تحت ’منصفانہ ٹرائل‘ کے حق کو یقینی بنانا تھا۔

اس دلیل کا جواب دیتے ہوئے کہ آئین کے بنانے والوں نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ آئین سازوں نے اس وقت یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ کسی وقت مذکورہ شق کے دائرہ کار کی کوئی حد نہیں ہوگی، سینیٹر عرفان صدیقی نے زور دے کر کہا کہ ’اگر آئین بنانے والوں کو اندازہ ہوتا کہ اس صوابدیدی اختیار کا اندھا دھند اور غیر منصفانہ استعمال کسی شہری کو سیاست سے روک سکتا ہے تو شاید وہ اس شق کو ختم کر دیتے یا اپیل کا حق دے دیتے۔

انہوں نے تحریک التوا میں کہا کہ کسی شخص کو اپیل کے حق سے محروم کرنا ’انصاف کے قتل‘ کے مترادف ہے۔

نواز شریف کی واپسی سے متعلق بے یقینی تاحال برقرار

لنکا پریمیئر لیگ کے میچ کے دوران اسٹیڈیم میں سانپ نکل آیا

وطن، شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے آئی ایس پی آر کی جانب سے خصوصی نغمے جاری