پاکستان

اتحادی جماعتوں کے دورِ اقتدار میں مہنگائی بےلگام رہی

امید ہے کہ نگران حکومت صورتحال کا جائزہ لے گی اور اِس ملک اور صارفین کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے پالیسیاں وضع کرے گی، رؤوف ابراہیم

موجودہ حکومت کے اقتدار کی مدت اختتام کے نزدیک پہنچ چکی ہے جس کے خراب رپورٹ کارڈ کا سب سے بدنما پہلو مارکیٹ اور اس سے باہر فروخت ہونے والی تقریباً ہر چیز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ مخلوط حکومت کے 16 ماہ کے عرصے میں اشیائے خورونوش، ٹرانسپورٹ چارجز اور بجلی اور گیس کے یوٹیلیٹی بلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے صارفین پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا۔

اس بے لگام مہنگائی کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں، اشیا کی عالمی قیمتوں میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بےقدری نے درآمدی اشیا کی قیمت کو مزید بڑھا دیا۔

علاوہ ازیں حکومت نے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے تقریباً تمام مطالبات کو مان لیا، جس سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا، دریں اثنا پرائیویٹ سیکٹر میں اشیا تیار کرنے والے بھی قیمتوں میں اضافے کرتے رہے۔

گزشتہ مالی سال کے دوران 2 کروڑ ملین ٹن گندم کی اچھی فصل اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ لاگت کی 27 لاکھ 30 ٹن کی درآمدات کے باوجود آٹے کے نرخ ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئے۔

صوبائی حکومتوں کی جانب سے گندم کے اجرا میں تاخیر، اوپن مارکیٹ سے مہنگی گندم پر انحصار، گندم کے کاشتکاروں کو پیش کی جانے والی خریداری کی قیمت میں تقریباً 100 فیصد اضافہ اور ایران اور افغانستان کو گندم کی اسمگلنگ کا حوالہ دے کر فلور ملرز آٹے کے نرخوں میں اضافہ کرتے رہے۔

باقی نقصان گندم اور چینی کے شعبوں میں سرمایہ کاروں، ذخیرہ اندوزوں اور سٹہ بازوں کی آمد سے ہوا، جس کے ڈھیروں کی وصولی کے لیے کوئی سنجیدہ پیش رفت نہ ہوئی۔

23-2022کے دوران پام آئل کی درآمدات میں 30 لاکھ ٹن تک 8.5 فیصد اضافے کے باوجود گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا۔

بجلی کے بلوں میں سب سے زیادہ چونکا دینے والا اضافہ 7.5 روپے فی یونٹ کے بڑھتے ہوئے ٹیرف اور مختلف چارجز میں مختلف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مزید اضافے کی صورت میں دیکھا گیا۔

پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 100 روپے فی لیٹر سے زیادہ اضافے نے بھی پہلے سے ہی پریشان صارفین پر بوجھ ڈالا، جو اب بھی ایک لاکھ ٹن روسی خام تیل کی درآمد کے مثبت اثرات کے منتظر ہیں، گیس چارجز 141.57 روپے سے بڑھ کر 295 روپے ہو گئے ہیں۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے کہا کہ گزشتہ 16 ماہ کے دوران اوسط مہنگائی 27 فیصد رہی جس کے نتیجے میں روزمرہ زندگی کی اوسط لاگت میں مساوی اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اشیائےخورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات روپے کی قدر میں نمایاں کمی اور اشیا کی عالمی قیمتیں ہیں کیونکہ پاکستان زیادہ تر غذائی اشیا درآمد کرتا ہے یا ان کی قیمتیں ڈالر کی قیمت سے جڑی ہوتی ہیں، علاوہ ازیں ایندھن کی مقامی قیمتوں نے بھی اشیائے خورونوش کی مہنگائی کو بڑھاوا دیا۔

محمد سہیل نے مزید کہا کہ یہ عوامل حکومت کے کنٹرول میں نہیں تھے، جس کی وجہ سے وہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ آئی ایم ایف معاہدے اور دیگر ممالک سے رقوم کی آمد کے ساتھ مختصر مدت میں معیشت پر دباؤ کم ہو جائے گا، تاہم معیشت کے طویل مدتی استحکام کو یقینی بنانے اور اسے دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔

محمد سہیل نے واضح کیا کہ اس بات کا کوئی امکان موجود نہیں ہے کہ صارفین کو فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف ملے گا، مہنگائی میں کمی کی صورت میں کچھ ریلیف دیکھا جا سکتا ہے، گیس ٹیرف میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یقیناً نگران حکومت کے سیٹ اپ میں صارفین دباؤ میں رہیں گے لیکن انہیں کچھ ریلیف بھی ملے گا کیونکہ اوسط مہنگائی مالی سال 2023 میں 29 فیصد ہے جوکہ مالی سال 2024 میں 21 فیصد پر آجائے گی۔

محمد سہیل نے توقع ظاہر کی کہ روپے اور ڈالر کی برابری اور شرح سود سے متاثر ہونے والے کاروبار کی لاگت رواں مالی سال کی دوسری ششماہی (جنوری تا جولائی) میں معمول پر آنا شروع ہو جائے گی۔

کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جی اے) کے چیئرمین رؤوف ابراہیم نے کہا کہ اشیائے خورونوش، یوٹیلیٹیز اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں زبردست اضافے کی وجہ سے روزمرہ زندگی کے اخراجات تقریباً دگنے ہو گئے ہیں۔

کتابوں، نوٹ بکس، اسکول اور کالج کی فیسوں اور اسکول اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے والدین کے لیے بڑھتے مالی اخراجات کا ایک اہم سبب بھاری تعلیمی اخراجات تھے۔

رؤوف ابراہیم نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کی عدم توجہی گندم، چینی اور چاول کی ذخیرہ اندوزی اور ان کی قیمتوں پر قیاس آرائیوں کا باعث بنی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی رٹ کی کمی کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ رات 8 بجے تک دکانیں اور رات 10 بجے تک شادی ہال بند کروانے کے حکم پر عمل درآمد نہیں کروا سکی۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں 500 سے زیادہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈائزڈ نرخوں پر ضروری اشیا فراہم کرنے کے لیے 30 ارب روپے کی سبسڈی ایک فلاپ آئیڈیا رہی کیونکہ یہ اسٹورز اعلیٰ متوسط آمدنی والوں یا پوش علاقوں میں قائم تھے، ان دکانوں سے صرف 20 فیصد غریب لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔

رؤوف ابراہیم نے امید ظاہر کی کہ نئی نگران حکومت صورتحال کا جائزہ لے گی اور ملک اور صارفین کو ان مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے پالیسیاں وضع کرے گی۔

حکومت رخصت ہونے کو تیار، قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے وزیراعظم آج سمری بھیجیں گے

خواہش ہے سنیتا اسلام قبول کرے لیکن ہر چیز کا صحیح وقت ہوتا ہے، شوہر حسن احمد

بھارت:پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث