پاکستان

جسٹس مظاہر کا چیف جسٹس کو خط، اپنے خلاف کارروائی بدنیتی پر مبنی قرار دے دی

میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں، جسٹس مظاہر علی نقوی

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کو لکھے گئے خط میں جسٹس مظاہر علی نقوی کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج نے لکھا ہے کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت میں زیادہ ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق رولز کے مطابق جج کے خلاف شکایت یا معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین کو پیش کی جاتی ہیں اور کونسل کے سربراہ مذکورہ معلومات یا شکایت کا جائزہ لینے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے کونسل کے کسی رکن کو بھیجے گا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ میرے معاملے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 29 مئی کو جسٹس سردار طارق مسعود کو شکایت پر رائے کا اظہار کرنے کے لیے معاملہ بھیجا گیا، یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ مذکورہ جج نے 3 اور 26 اپریل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین اور مجھے دو خطوط لکھے تھے۔

جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق اس خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے کارروائی شروع کرنے کے لیے بے صبری اور بے تابی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، جج کا یہ طرز عمل ناصرف حیران کن بلکہ بے مثال تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے کسی رکن نے اس انداز سے کام نہیں کیا جبکہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ ججوں کے خلاف متعدد شکایات سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کے پاس موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود صرف مجھے ہی نشانہ بنایا گیا ہے جو کہ میرے خلاف مذکورہ جج کی جان بوجھ کر ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے، یہ مذکورہ جج کے مذکورہ بالا طرز عمل کے بالکل خلاف ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے خط میں مزید کہا کہ مذکورہ جج کارروائی شروع کرنے کے لیے اپنی بے چینی کا اظہار کر چکے ہیں اور اب 29 مئی کو چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے اپنی رائے کے اظہار کے لیے معاملہ ان کے پاس بھیجا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود 65 دن سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی طرف سے کوئی رائے نہیں دی گئی، گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے انہوں نے اپنا آئینی فرض ادا کرنے کے بجائے آرام کو ترجیح دی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے کا جان بوجھ کر انتظار کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کے طریقہ کار کے پیرا 9 کے مطابق اگر کونسل کسی جج کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے اپنا مؤقف بیان کرنے کے لیے 14 دن کا وقت دیا جائے گا، جج جس کے پاس معاملہ رائے کے لیے بھیجا گیا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک مناسب وقت کے اندر اپنی رائے پیش کریں، رائے کی مدت 14 دن سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ کہنے میں مکمل طور پر حق بجانب ہوں کہ مذکورہ جج کی جانب سے رائے آگے بڑھانے میں تاخیر جان بوجھ کر کی جا رہی ہے، یہ سب ایک مذموم ڈیزائن پر مبنی ہے لہٰذا اس بات کا ہر ممکن امکان ہے کہ میرے ساتھ قانون کے مطابق انصاف، منصفانہ اور مناسب سلوک نہیں کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔

اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

دائر کردہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالت عظمیٰ کے ایک اور جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس پر غور کرنے کے لیے کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے خط لکھا تھا۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ اور چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے موجودہ جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف دائر متعدد شکایات پر جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔

شاہنواز دھانی کامیڈین چاہت فتح علی خان کے شاگرد قرار

بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی شرکت ’سیکیورٹی گارنٹی‘ سے مشروط

کیریئر کیلئے ایسی مشکلات بھی برداشت کیں، جن کا ذکر نہیں کر سکتی، حریم فاروق