دنیا

فرانس: 1300 مظاہرین گرفتار، پولیس کی فائرنگ سےہلاک نوجوان کی آخری رسومات ادا

صدرایمانوئیل میکرون نے حالات کے باعث اتوار کو شیڈول دورہ جرمنی ملتوی کردیا اور حکام نے احتجاج کے دوران ہونے والے نقصانات کے اعداد وشمار بھی جاری کردیے۔

فرانس میں پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے بعدپرتشدد احتجاج جاری ہے جہاں پولیس کے مطابق تاحال 1300 مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور جاں بحق نوجوان کی آخری رسومات بھی ادا کردی گئی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے بتایا کہ پرتشدد احتجاج گزشتہ چند روز کے مقابلے میں کمی آئی ہے لیکن وزارت داخلہ نے ملک بھر میں اب تک ایک ہزار 311 مظاہرین کی گرفتاری کی رپورٹ دی ہے۔

فرانس کی پولیس نے منگل کو فائرنگ کرکے 17 سالہ نوجوان ناہیل کو قتل کردیا تھا جس کے بعد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق نوجوان کی آخری رسومات پیرس کے مضافات نانتیرے میں ادا کی گئی جہاں وہ مقیم تھے اور خوف دہ ماحول میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

نوجوان کے لواحقین نے آخری رسومات کیمروں سے دور رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور آخری رسومات نانتیرے میں واقع مسجد میں رکھی گئی تھی جبکہ تدفین مونٹ والیرئین میں رکھی گئی تھی۔

دوسری جانب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے کشیدگی کے باعث اتوار کو شیڈول جرمنی کا دورہ بھی ملتوی کردیا۔

صوبائی وزارت نے ہفتے کو اعداد و شمار جاری کیے جس میں کہا گیا کہ ایک ہزار 350 گاڑیاں اور 234 عمارتیں نذر آتش کردی گئی ہیں اور عوامی مقامات میں آگ لگانے کے 2 ہزار 560 سے زائد واقعات پیش آئے۔

وزارت نے کہا کہ 79 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔

فسادات پر قابو پانے کے لیے 45 ہزار اہلکار تعینات

قبل ازیں حکومت نے کہا تھا کہ فرانس میں شمالی افریقی نژاد نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مسلسل چار روز سے جاری ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے ہفتے کو 45 ہزار پولیس افسران تعینات کردیے گئے اور متعدد بکتر بند گاڑیاں سڑکوں پر گشت کر رہی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے رپورٹ میں کہا تھا کہ ان ہنگاموں کے دوران کئی عمارتوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور دکانوں کو لوٹ لیا گیا، پُرتشدد مظاہروں نے صدر ایمانوئل میکرون کو 2018 میں شروع ہونے والے ’یلو ویسٹ‘ احتجاج کے بعد سنگین بحران میں ڈال دیا ہے۔

چند روز قبل (28 جون) پیرس میں ٹریفک اسٹاپ کے دوران پولیس کی جانب سے 17 سالہ نوجوان ناہیل ایم کو پولیس کی جانب سے گولی مارنے کے واقعےکے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور مشہور شخصیات نے بھی اس قتل پر غم و غصے کا اظہار کیا۔

نوجوان کی موت نے غریب اور نسلی طور پر مخلوط شہری برادریوں کی پولیس تشدد اور نسل پرستی کی دیرینہ شکایات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔

وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن نے ہفتے کی صبح بتایا کہ جمعہ کی رات 270 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جس سے بدامنی شروع ہونے کے بعد گرفتاریوں کی مجموعی تعداد 1100 سے تجاوز کر چکی ہے۔

جمعہ کی رات کی گرفتاریوں میں جنوبی شہر مارسیلے کے 80 افراد شامل تھے، جو فرانس کا دوسرا بڑا اور شمالی افریقی نسل کے بہت سے لوگوں کا گھر ہے۔

سوشل میڈیا کی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مارسیلے میں پرانے بندگارہ کے علاقے میں دھماکا ہوا، حکام نے بتایا کہ اس حوالے سے تحقیقات کی جار ہی ہیں لیکن یقین نہیں ہے کہ کوئی جانی نقصان ہوا۔

پولیس نے بتایا کہ وسطی مارسیلے میں فسادیوں نے بندوق کی دکان کو لوٹ لیا اور متعدد شکاری رائفلیں چرا لیں، تاہم کوئی گولہ بارود نہیں لوٹا گیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اسٹور سے چوری کی گئی رائفل کے ساتھ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، اب اسٹور پر پولیس کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

مزید اہلکار تعینات کرنے کا مطالبہ

مارسیلے کے میئر بینوئٹ پیان نے قومی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اضافی فوجیوں کو بھیجا جائے، ان کا کہنا تھا کہ لوٹ مار اور تشدد کے واقعات ناقابل قبول ہیں۔

فرانس کے تیسرے سب سے بڑے شہر لیون میں پولیس فورس نے بدامنی پر قابو پانے کے لیے بکتر بند گاڑی اور ایک ہیلی کاپٹر تعینات کیا۔

وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن نے پورے فرانس میں مقامی حکام سے بس اور ٹرام ٹریفک کو رات 9 بجے سے روکنے کے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ 45 ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے فائر فائٹرز اور پولیس افسران کے لیے لکھا کہ اگلے چند گھنٹے فیصلہ کن ہوں گے، اور میں جانتا ہوں کہ میں آپ کی بے عیب کوششوں پر اعتماد کر سکتا ہوں۔

ٹی ایف ون کے نیوز پروگرام میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت ایمرجنسی نفاذ کرے گی، جس پر جیرالڈ ڈارمینن کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی مفروضے کو مسترد نہیں کر رہے، ہم آج رات کے بعد دیکھیں گے کہ جمہوریہ کے صدر کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

پیرس میں پولیس نے جمعے کی رات ایک غیر معمولی مظاہرے کے بعد مظاہرین کو مشہور مرکزی پلیس ڈی لا کانکورڈ اسکوائر سے ہٹا دیا تھا۔

جیرالڈ ڈارمینن نے بتایا کہ بدامنی پھیلنے کے بعد سے اب تک 200 سے زائد افسران زخمی ہو چکے ہیں اور درجنوں فسادیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے، مزید بتایا کہ ان کی اوسط عمر 17 برس ہے۔

ایمانوئل میکرون کی ہنگامی اجلاس میں شرکت

ایمانوئل میکرون نے 2 دنوں میں کابینہ کے بحران کے دوسرے اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کو جلد چھوڑ دیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ فسادات کی ’انتہائی حساس‘ فوٹیج کو ہٹائے اور تشدد کو ہوا دینے والے صارفین کی شناخت ظاہر کرے۔

جیرالڈ ڈارمینن نے میٹا، ٹوئٹر، اسنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک کے نمائندوں سے ملاقات کی، اسنیپ چیٹ کا کہنا تھا کہ تشدد کو فروغ دینے والے مواد کے لیے ان کی زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔

متاثرہ نوجوان کے خاندان کے ایک دوست محمد جاکوبی نے ناہیل کو بڑا ہوتے دیکھا، ان کا کہنا تھا کہ اقلیتی نسلی برادریوں کے خلاف پولیس کے تشدد کے واقعات کے بعد غصے کو ناانصافی کے احساس سے ہوا ملی، جن میں سے اکثر کا تعلق سابق فرانسیسی کالونیوں سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم تنگ آچکے ہیں، ہم بھی فرانسیسی ہیں، ہم تشدد کے خلاف ہیں، ہم گندے نہیں ہیں۔

ایمانوئل میکرون اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر نظامی نسل پرستی موجود ہے۔

شاہین شاہ آفریدی نے ایک اور ریکارڈ اپنے نام کر لیا

آئی ایم ایف معاہدہ بنیادی اصلاحات کرنے کا ایک اور موقع ہے، مفتاح اسمٰعیل

بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں بس میں آتشزدگی، 25 افراد ہلاک