بجٹ 24-2023: کاروباری طبقے نے عوام، صنعت پر اضافی بوجھ کو مسترد کردیا
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے اختتامی بجٹ تقریر میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور دیگر سخت اقدامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تاجر برادری نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بےضابطگیاں تاحال غیرحل شدہ ہیں جبکہ مستقبل کی ترقی کے لیے وسائل کے استعمال اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) عبدالعلیم نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اسحٰق ڈار اور ان کی ٹیم نے ان بے ضابطگیوں کو دور کیا ہے جن کی نشاندہی او آئی سی سی آئی سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اہم مسائل میں سے ایک بڑے کارپوریٹ سیکٹر پر عائد اعلیٰ سطح کا سپر ٹیکس ہے، حکومت نے کچھ نرخوں پر نظرثانی کی ہے اور نچلی سطح پر کسی حد تک رعایت فراہم کی ہے لیکن زیادہ تر بڑے کارپوریٹ سیکٹر کو اب بھی 10 فیصد سپر ٹیکس ادا کرنے کو کہا جا رہا ہے جو کہ بہت سخت اقدام ہے اور یہ سرمایہ کاری کے لیے اچھا نہیں ہے۔
عبدالعلیم نے کہا کہ حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو مؤثر طریقے سے 29 فیصد سے بڑھا کر 39 فیصد کر دیا ہے جبکہ اس کی مقامی اوسط 25 فیصد ہے، اس ماحول میں ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکے گا؟ یہ قدرے مایوسی کا باعث ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا مسئلہ او آئی سی سی آئی نے یہ دیکھا ہے کہ حکومت نے ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں جس پر اہم اسٹیک ہولڈرز نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حکومت کیوں بہت خوش ہے کہ 94 کھرب روپے کا ریونیو اکٹھا ہو جائے گا، یہ کافی نہیں ہے، حکومت مزید کچھ اقدامات کرسکتی ہے جس پر اسٹیک ہولڈرز نے مختلف اقدامات تجویز کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ کے اچھے اقدامات میں سے ایک ذیلی کمیٹی کے ذریعے تنازعات کو حل کرنا ہے، اگر یہ کمیٹی فعال ہے تو زیر التوا مقدمات کی تعداد کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر کو حقیقی ذمہ داری کے بارے میں جاننا چاہیے، ایک اور اچھا قدم کم از کم اجرت میں اضافہ ہے۔
ترجمان او آئی سی سی آئی نے ریمارکس دیے کہ ہم مجموعی طور پر مطمئن نہیں ہیں، کارپوریٹ سیکٹر کا مناسب انداز میں خیال نہیں رکھا گیا ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹیو احسان ملک نے کہا کہ ہمارے پاس اخراجات میں معمولی کٹوتی اور ٹیکسز میں مزید اضافے کے علاوہ ان تبدیلیوں کی خاطر خواہ تفصیلات نہیں ہیں جو زیادہ تر پہلے سے عائد ٹیکسوں پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس بیس کو بڑھانے کے لیے خاص طور پر خوردہ فروشوں اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوئی بنیادی نیا اقدام نہیں نظر آیا، ونڈ فال ٹیکس سیکشن میں کچھ تبدیلیاں نظر آرہی ہیں جس کے ذریعے ’لُک-بیک‘ کی مدت کو 3 سال تک کم کیا گیا ہے لیکن یہ غیر یقینی پیدا کرتا رہے گا اور کاروباری طبقے کے جذبات کو متاثر کرتا رہے گا۔
احسان ملک نے کہا کہ سپر ٹیکس ایسے کامیاب کاروباروں پر بوجھ ڈالتا رہے گا جو روزگار پیدا کرتے ہیں اور پہلے ہی اچھی ٹیکس آمدنی پیدا کرتے ہیں، ٹیکس نیٹ میں آنے والی کمپنیوں کے لیے ایک واضح پیغام یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو موجودہ کاروبار کو چھوٹے یونٹس میں تقسیم کرکے یا ملک سے باہر سرمایہ کاری کر کے اس ریڈار سے بچے رہیں، پیشہ ور افراد کے لیے بھی یہی پیغام ہے، فائدے میں صرف بیوروکریٹس ہیں۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر طارق یوسف نے کہا کہ کھاد پر 5 فیصد لیوی اور 10 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی سے عوام پر بوجھ بڑھے گا اور انڈسٹری کو نقصان پہنچے گا کیونکہ 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے مستقبل کی ترقی، وسائل، بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے چیئرمین ریاض الدین نے کہا کہ ہم 215 ارب روپے کے نئے ٹیکسیشن اقدامات کو دیکھنے کے لیے ترمیم شدہ فنانس بل/ایکٹ کی تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر صارفین کے روزمرہ اخراجات پر منفی اثر ڈالے گا اور صنعتوں پر مزید بوجھ پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ضروری اشیا پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو 10 فیصد سے نیچے لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تھے جبکہ لگژری اشیا پر 25 فیصد جی ایس ٹی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسمگلنگ کو روکنے کے لیے مختلف اشیا پر کسٹم ڈیوٹی کو 25 سے 30 فیصد کی حد تک کرنے کی ضرورت تھی لیکن بجٹ میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔