پاکستان

ایک اور دوا ساز کمپنی نے پاکستان سے کاروبار سمیٹ لیا، ملازمین کا نوکری کے تحفظ کا مطالبہ

نئی انتظامیہ کی جانب سے چھانٹی کیے جانے کے خدشے سے دوچار ملازمین نے کمپنی سے علیحدگی کے پیکجز کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک اور ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی کی جانب سے پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹے جانے کے بعد نئی مینجمنٹ کی جانب سے چھانٹی کیے جانے کے خدشے سے دوچار ملازمین نے کمپنی کی بین الاقوامی پالیسیوں کے مطابق ملازمت کے تحفظ کی یقین دہانی اور کمپنی سے علیحدگی کے پیکجز کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بایر (Bayer) کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس نے اپنے اثاثے ایک مقامی کمپنی کو فروخت کر دیے ہیں جس نے موجودہ ملازمین کو کم از کم دو سال کے لیے ملازمت کے تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے چونکہ یہ کارکن ملازمت کرتے رہیں گے، اس لیے کسی کی جانب سے علیحدگی کے پیکجز کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔

بایر پاکستان سے حال ہی میں اپنا کاروبار سمیٹنے والی دوسری بین الاقوامی دوا ساز کمپنی ہے، اس سے قبل نومبر 2022 میں امریکی دوا ساز کمپنی ایلی للی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان سے کاروبار سمیٹ رہی ہے۔

جرمنی کی ملٹی نیشنل کمپنی کے مقامی ملازمین نے رواں ہفتے نیشنل پریس کلب میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں کمپنی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ انہیں 60 سے 100 ماہ کی تنخواہیں ادا کرے جو کہ دنیا میں کسی اور کمپنی کی جانب سے برطرف کیے جانے کی پالیسیوں کے برابر ہے۔

مظاہرے میں متاثرہ ملازمین نے صدر، وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ ان کی حالت زار کا نوٹس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ادارہ انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم نہ کرے۔

ملازمین کے وکیل ملک اشفاق احمد نے ڈان کو بتایا کہ ان کے مؤکلین کے مطابق کمپنی نے اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی نے 450 فیلڈ اور مارکیٹنگ ملازمین کو برطرف کیا لیکن انہیں برطرفی کا پیکیج دینے سے انکار کر دیا ہے، کمپنی نے پاکستان میں اپنے اثاثے ایک مقامی کمپنی کو فروخت کر دیے ہیں لیکن تقریباً 450 ملازمین کو برطرفی کا پیکج نہیں دیا جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملازمین یہاں آئے ہیں کہ فیصلہ سازوں سے اپیل کر سکیں کہ وہ مداخلت کر کے اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمپنی اپنی پالیسی پر عمل کرے، جب کمپنیاں مغربی ممالک میں ملازمین کو فارغ کرتی ہیں تو وہ قوانین اور ضوابط پر عمل کرتی ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں وہ اپنے ہی قوانین کو نظر انداز کر دیتی ہیں، یہ انتہائی نامناسب ہے۔

احتجاج کرنے والے ملازمین میں سے ایک نے کہا کہ بایر کے ملازمین کمپنی سے علیحدگی کے ایک اچھے پیکج کے حقدار ہیں، چونکہ کمپنی ایک مقامی فرم کو فروخت کر دی گئی ہے، اس لیے وہ ملازمت کی حفاظت کی دو سال کی مدت ختم ہونے کے بعد اسی طرح کی برطرفی کی شرائط کی توقع نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ مقامی کمپنی ہمیں دو سال بعد برطرف کر سکتی ہے۔

تاہم، بایر فارما کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران احمد خان نے ڈان کو بتایا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کمپنی کے ملازمین ’غلط معلومات پھیلا رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بھی ملازم کو برطرف نہیں کیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ بایر نے اپنے اثاثے اور حصص ایک مقامی کمپنی کو فروخت کیے ہیں، معاہدے میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مقامی کمپنی ملازمین کو تنخواہ کے انہی پیکیجز پر برقرار رکھے گی اور کسی کو دو سال تک ملازمت سے نہیں نکالے گی، کمپنی کے ملازمین کی کُل تعداد تقریباً 250 تھی جو کہ اس تعداد سے بہت کم ہے جس کے بارے میں ملازمین کا دعویٰ ہے کہ انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تمام ملازمین نے مقامی فرم کی طرف سے جاری کردہ آفر لیٹرز پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں دو سال تک ملازمت کا تحفظ حاصل ہے اور اس کے نتیجے میں کمپنی سے علیحدگی کے پیکج کے مطالبے کی کوئی منطق نہیں کیونکہ کسی کو بھی فارغ نہیں کیا جا رہا۔

یونان کشتی حادثہ: ’پاکستان کو مربوط لیبر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے‘

گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں میں سیلاب، گلیشیائی جھیل پھٹنے کا انتباہ

مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کی مبینہ کوشش کےخلاف جامعہ حفصہ کی طالبات کا احتجاج