نقطہ نظر

ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: ’جاپانیوں کو برصغیر کے لوگ ایک جیسے لگتے ہیں‘

جاپانیوں کو کمر درد بالکل نہیں ہوتا ہوگا۔ کیونکہ وہ سلام دعا میں ہی یہ اتنا جھک جاتے ہیں کہ کمر سے ہمیشہ چست رہتے ہوں گے۔

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


پہلی مرتبہ سال 2008ء میں ٹوکیو سے 80 کلومیٹر دور ناریتا شہر (Narita) کے ہوائی اڈے پر اترتے وقت مجھے جاپان کے بارے میں صرف دو چیزیں معلوم تھیں۔ ایک یہ کہ یہاں ایٹم بم گرایا گیا تھا اور دوسری بات یہ کہ اگر گھر میں وی سی آر رکھنا ہے تو بس جاپانی۔

بیجنگ سے ٹوکیو کی پرواز کے دوران جاپانی لوگوں سے مل کر میں نے حساب لگایا کہ ان کو کمر درد بالکل نہیں ہوتا ہوگا۔ سلام دعا میں ہی یہ اتنا جھک جاتے ہیں کہ ان کی کمر ہمیشہ چست رہتی ہوگی۔

دورانِ پرواز ایک جاپانی نوجوان سے بات کرتے ہوئے جس کو انگریزی کافی اچھی بولنی آتی تھی، پوچھا کہ کیا آپ لوگ چینی، جاپانی، تائیوانی اور اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کو آسانی سے پہچان لیتے ہیں کیونکہ ہمیں تو آپ سب ایک جیسے لگتے ہیں؟ کہنے لگے کہ ’ہمارے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں البتہ آپ یعنی پاکستانی، انڈین اور اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کو پہچاننے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ آپ سب ایک جیسے لگتے ہیں‘۔ پرواز پر کام زیادہ تھا اس لیے ہوٹل جاکر مجھے اس بات پر واقعی بہت حیرت ہوئی۔

ناریتا کے ہوائی اڈے پر جو عملہ جہاز کی صفائی کرنے کے لیے آیا وہ ایسے جہاز کو صاف کرنے لگا جیسے بھل صفائی کی مہم پر آیا ہو۔ مجھے لگتا ہے صفائی ان کے یہاں ’مکمل ایمان‘ ہے۔ جہاز کی نشستیں، قالین اور یہاں تک کہ ٹوائلٹ ایسے چمکا گئے کہ باقاعدہ اندر جاکر بیٹھنے کو دل کرنے لگا۔ ہم نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو روکا اور سامان اٹھا کر جہاز سے باہر نکلے۔

جاپانیوں کو آپس میں بات کرتے سنا تو مجھے ان کا لہجہ کافی غصیلا لگا۔ چینی لوگ بولتے ہوئے یاں پاں زیادہ کرتے ہیں اور الفاظ کو لمبا کھینچتے ہیں جبکہ جاپانی ایک دم ہی پوری بات کر دیتے ہیں۔

ہوٹل پہنچنے تک مایوسی نے میرے ساتھیوں کو آہستہ آہستہ چاروں طرف سے گھیرنا شروع کردیا کیونکہ ناریتا شہر بہت ہی پرسکون نظر آ رہا تھا جبکہ ہم سب ٹوکیو جیسے عروس البلاد کا نقشہ آرڈر پر بنوائے اور آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے۔ صاف ستھرا اور اتنا خاموش شہر کہ لوگ بھی اکا دکا ہی نظر آئے یا شاید وہ وقت ایسا تھا کہ سڑکوں پر اتنا ٹریفک بھی نہیں تھا۔ البتہ میرے چہرے پر اطمینان دیکھ کر سب نے میرے سامنے اپنے آپ کو حاسدین کے روپ میں پیش کیا کیوں کہ مجھے پرانی، پُرسکون اور تاریخی جگہیں بہت پسند ہیں۔

صبح ناشتہ کرنے لاؤنج میں آئے تو شکر ادا کیا کہ چین کے ہوٹل کی طرح یہاں عجیب سی بدبو نہیں آرہی تھی۔ چینی تو معلوم نہیں کیا کیا پکا کر کھا جاتے ہیں۔ حلال کھانے کا مسئلہ یہاں بھی رہا اس لیے چاول، مچھلی اور انڈوں وغیرہ سے انصاف کرتے رہے۔ ایک رات کھانے میں وہاں کے خانساماں اعظم نے اسپیشل سلاد بنائی اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس میں کہیں کہیں چنے بھی نظر آرہے تھے جو سبزیوں میں سے جھانک رہے تھے۔ میری عادت ہے کہ بوفے ہو تو ایک بار کھانا مکمل طور پر پلیٹ میں ڈال کر کھانے بیٹھتا ہوں۔ میرے ساتھ جو دوست تھے وہ کھانا ڈالنے کے دوران ہی چکھنے لگے۔

ابھی میز پر آکر بیٹھا ہی تھا کہ سینیئر آگئے۔ سلام دعا کی اور پوچھا آج کیا کھا رہے ہو۔ میں نے کہا سر وہی چاول اور مچھلی البتہ سلاد زبردست لگ رہا ہے۔ کہنے لگے چلو میں بھی لے کر آتا ہوں۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں ساتھی کھانے کی پلیٹیں رکھ کر ٹوائلٹ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ میں نے اٹھ کر سینیئر سے پوچھا سر کیا ہوا ان دونوں کو؟ انہوں نے بتایا کہ یہ جس کو چنا سلاد (Chickpeas Salad) سمجھ کر کھائے جا رہے ہیں وہ دراصل ’لحم الخنزیر کے پارچہ جات‘ ہیں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنا سلاد کا پیالا بوفے کی میز پر ہی واپس رکھ آیا۔ بعد میں ان دو ساتھیوں کا اتنا مذاق بنا کہ اب وہ عام چنے بھی پھونک پھونک کر کھاتے ہیں۔

ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ایک دکان تھی جہاں استعمال شدہ اشیا برائے فروخت تھیں۔ وہاں سے ایک ساتھی نے گھڑی خریدی اور آج 15 سال بعد بھی اس کا کہنا ہے کہ میرا ٹائم خراب چل رہا ہے لیکن گھڑی کا ٹائم اب بھی بالکل ٹھیک ہے۔ شہر میں واقع قدیم عبادت گاہیں بھی دیکھیں جن کی دیواروں پر بنے نقش و نگار حیرت انگیز تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور ناریتاسان شنشوجی ٹیمپل تھا جو ہوائی اڈے سے قریب ہے۔

بدھ مذہب کی یہ وسیع و عریض عبادت گاہ مختلف عمارتوں کا مجموعہ ہے جو سن 940ء میں قائم کی گئی تھی۔ ان عمارتوں میں نئے اور پرانے مرکزی ہال کے علاوہ ایک 3 منزلہ ’پگوڈا‘ اور طاہٹو طرزِ تعمیر کا بہت بڑا پگوڈا شامل ہیں۔ پگوڈا کثیر المنزلہ عبادت گاہ کو کہا جاتا ہے جو بدھ مذہب میں عام ہیں۔ بس اگر کسی پگوڈے پر چڑھنا پڑ جائے تو انسان کے ’گوڈے‘ رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا نیچے ہی کھڑے ہو کر تصویر لی اور آگے بڑھ گیا۔

ٹوکیو کی ’نائٹ لائف‘ دیکھنے کی بڑی خواہش تھی لیکن ایک ساتھی کی طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے ٹوکیو کے ’ڈانس کدوں‘ میں رقصاں ہونے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا۔ 2011ء میں وہی ساتھی جب میرے بغیر ٹوکیو پہنچا تو قدرت نے اس کو ’سونامی‘ کی شکل میں پھر عیاشی کرنے سے روک دیا۔

بعد میں اس نے بتایا کہ کے جے بھائی سڑکوں میں ایسے گہرے شگاف پڑے کہ جیسے شرمندگی کے وقت ہم دعا کرتے ہیں کہ زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں سما جائیں۔ پل ایسے لہرا رہے تھے جیسے رنگ ساز دوپٹے سکھاتے ہیں۔ جاپانی دوشیزاؤں کی جگہ سڑکیں اور عمارتیں لہرا اور بل کھا رہی تھیں۔ ہوٹل والوں نے لابی میں ہی بستر ڈال کر سونے کا انتظام کردیا، کمروں میں سونا منع تھا کیونکہ اگر پھر زلزلہ آ گیا تو ’پکا پکایا‘ مقبرہ بننے کا ڈر تھا۔ لیکن دوسرے دن ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باوجود تمام لوگ ہر جگہ ڈیوٹی پر موجود تھے۔ سب سائیکلوں پر دفتر آئے تھے۔

3 دن ناریتا میں ہی رکے اور جاپانیوں نے جان لگا کر رن وے چالو کرکے فضائی آپریشن بحال کردیا۔ شکر خدا کا اس دوران تمام عملہ محفوظ رہا اور واپسی کی پرواز پر پاکستان پہنچے۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔