بجٹ 24-2023 میں رکھے گئے اہداف غیر حقیقی ہیں، صنعتکار
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ اینڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عرفان اقبال شیخ نے کہا ہے کہ بجٹ 24-2023 میں جو اہداف رکھے گئے ہیں، وہ غیر حقیقی نظر آتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ کاروباری برادری فنانس بل میں ’چھپے ہوئے ٹیکسز‘ کو دیکھے گی۔
ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے بتایا کہ 92 کھرب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف نہ صرف مشکل نظر آتا ہے بلکہ اس کے منفی نتائج بھی برآمد ہوں گے، گزشتہ برس کے 75 کھرب کے ہدف کو بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ معاشی شرح نمو 6 فیصد سےگر کر 0.29 فیصد پر آ گئی، لہٰذا اس کم شرح نمو کی کارکردگی پر کیسے زیادہ ٹیکسز عائد کیے جاسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ٹیکس نیٹ میں نئے لوگوں کو لائے بغیر موجودہ ٹیکس پیئر پر مزید نئے ٹیکس عائد کر رہی ہے۔
عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ جب تک شرح سود، شرح تبادلہ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام نہیں آتا، معیشت کارکردگی نہیں دکھائے گی۔
تاہم انہوں نے بجٹ میں اٹھائے گئے کچھ اقدات کو سراہا، جس میں تخفیف غربت کے لیے قرض اسکیم کے حجم کو 1800 ارب سے بڑھا کا 2 ہزار 55 ارب کرنا، سولر انرجی اور بیجوں پر ڈیوٹی کو ختم کرنا اور نوجوانوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں 50 فیصد کمی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کا درجہ دے دیا گیا ہے، جس سے یقینی طور پر مقامی سطح پر آئی ٹی کی ترقی جبکہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹیو احسان ملک نے بتایا کہ غیرمعمولی وقت میں یہ عمومی بجٹ ہے، غیرٹیکس شدہ شعبوں اور کم ٹیکس دینے والے شعبوں (ہول سیل، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ) پر ٹیکس لگا کر بنیادی اصلاحات کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے نان فائلرز اور نیشنل ڈیٹا اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا، اس کے علاوہ انڈر انوائسنگ کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ ’صنعتوں پر نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا‘ جو کہ غلط ہے کیونکہ سپر ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے، یہ مکمل طور پر ترقی پسندانہ طریقہ نہیں ہے۔
اچھے اقدامات کے حوالے سے احسان ملک نے بتایا کہ زرعی شعبے پر توجہ دینا خاص طور پر بیجوں اور تکنیکی طریقہ پر توجہ دینا اچھا ہے، لسٹڈ کمپنیوں پر ٹیکس کو کم کرنا درست سمت کی طرف قدم ہے۔
احسان ملک کا کہنا تھا کہ ٹیکس اکھٹا کرنے کا ہدف غیرحقیقی لگتا ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے مالیاتی خسارے پر بوجھ پڑے گا، منی بجٹ آنے کو روکا نہیں جاسکتا۔
اوورسیز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے سیکریٹری جنرل عبدالعلیم نے بتایا کہ بجٹ میں ٹیکس اقدامات سے یہ ’عبوری بجٹ‘ نظر آتا ہے، مخصوص شعبوں کے لیے قلیل مدتی اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن معاشی استحکام کے لیے اقدامات کا فقدان ہے۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) کے صدر کاشف انور نے بتایا کہ صنعتوں کا مسابقتی انرجی ٹیرف و دیگر مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا، انہوں نے بجٹ کو آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے حوالے سے اچھا قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بجٹ کو آئی ٹی بزنس کے فروغ اور زراعت دوست کے طور پر دیکھتے ہیں، یہ بھی اچھا ہے کہ ہماری متعدد تجاویز کو منظور کیا گیا ہے۔
کاشف انور نے بتایا کہ 30 ارب ڈالر کے برآمدی ہدف اور 33 ارب ڈالر کی ترسیلات زرحاصل کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرنا چاہئیں، اس حوالے سے ایکسپورٹ کونسل کا قیام خوش آئند ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل شاہد ستار نے بتایا کہ برآمدی صنعتوں کے لیے 9 سینٹ کا ٹیرف علاقی ممالک سے مسابقت کے لیے انتہائی اہم ہے لیکن بجٹ میں اس معاملے کا ذکر نہیں کیا گیا۔