پاکستان

ایم ڈی آئی ایم ایف نے زبانی ’کمٹمنٹ‘ دے دی، اب معاہدے میں کوئی رکاوٹ نہیں، وزیراعظم

ہمارا سب سے پہلا امتحان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی تھی جسے گزشتہ حکومت نے سبوتاژ کردیا تھا، شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے لیے تمام شرائط کو من و عن تسلیم کرلیا گیا ہے، امید ہے کہ نواں جائزہ اسی ماہ منظور کرلیا جائے گا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر خزانہ نے ہماری معاشی صورتحال کے حوالے سے ایک بڑی بھرپور پریس کانفرنس کی اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ جب ہم نے مملکت کی ذمے داری سنبھالی، سب سے پہلا ہمار امتحان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی تھی جسے گزشتہ حکومت نے سبوتاژ کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے اپنے کیے ہوئے معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں، پھر بڑی مشکل سے ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کیے، گزشتہ سال کے سیلاب نے بھی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کابینہ کا یہ اجلاس بجٹ کی منظوری کے لیے ہے، منظوری کے بعد اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو نہ صرف من و عن تسلیم کرلیا گیا ہے بلکہ تمام پیشگی اقدامات پر ہم نے پوری طرح عمل درآمد کیا، لیکن ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط نہیں کیے گئے، اس پر دستخط ہونے کے بعد یہ معاملہ بورڈ میں جائے گا۔

’اب کوئی بھی ایسی چیز باقی نہیں جو آئی ایم ایف معاہدے میں رکاوٹ بن جائے‘

شہباز شریف نے کہا کہ یہ امید کی جانی چاہیے کہ تمام شرائط پوری کرنے کے بعد اسی ماہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ مکمل ہوکر بورڈ سے اس کی منظوری لی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ میری آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی ہے اور اس گفتگو کے نتیجے میں، میں یہ کہہ سکتا ہوں، میں نے ان کو تجویز دی تھی کہ آپ اگر زبانی کمٹمنٹ دیں تو اس کی بنیاد پر ہم آپ کے کہے ہوئے جو ایک دو باقی اقدامات باقی ہیں، وہ بھی کردیں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ایم ڈی آئی ایم ایف نے مہربانی کی اور زبانی کمٹمنٹ دی اور اس کے نتیجے میں ہم نے وہ اقدامات بھی اٹھا لیے ہیں، اس وقت اب کوئی بھی ایسی چیز باقی نہیں جو اس میں رکاوٹ بن جائے۔

انہوں نے کہا کہ جو مسائل میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں، اس کے باعث پاکستان کے عام آدمی پر بے پناہ مہنگائی کا بوجھ پڑا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی اس وقت دنیا میں سکہ رائج الوقت ہے، چاہے امریکا ہو یا برطانیہ، ہر جگہ مہنگائی ہے لیکن ان ممالک کی معیشت میں اتنی سکت ہے کہ وہ اپنے عوام کو دے سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جب ہم نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت گزشتہ حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا اور ان 14 ماہ میں جو مشکلات ہم پر آپڑی ہیں، وہ میں نے ابھی بیان کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مشکل دور میں چین، سعودی عرب اور یو ای اے نے ہماری بہت مدد کی جس پر ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں۔

’معیشت کا پہیہ سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘

شہباز شریف نے کہا کہ آج بجٹ پیش ہونا ہے اور اب چیلنج یہ ہے کہ مہنگائی نے غریب آدمی پر جو بے پناہ بوجھ ڈالا ہے، ہماری معیشت سست روی کا شکار ہے، درآمدات پر کنٹرول پالیسی کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے، تمام چیلنجز پر قابو پانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگز کیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ زرعی شعبے میں اقدامات کریں تو بہت جلد نتائج مل سکتے ہیں، دیگر ممالک کی زرعی پیداواری صلاحیت میں دوگنا یا اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوچکا، کیا ہم نے اس میں کوئی پیش رفت کی، میرا جواب ہے کہ کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔

’غریب آدمی کی تنخواہ میں کم از کم اتنا اضافہ کیا جائے جس سے وہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکے‘

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں معیشت کا پہیہ سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اگر کسی بھی ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو وہاں پر معیشت کی ترقی تو دور کی بات ہے بلکہ وہ تباہ ہوجائے گی، پاکستان میں ایک سال، سوا سال سے جو سیاسی عدم استحکام کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے، اس کے لیے جو ذرائع تلاش کیے گئے، اس کے لیے جو بیانیہ اختیار کیا گیا، جو جتھے بندی کی گئی، اس سے اس ملک میں ایک سیاسی طوفان آیا جس نے معاش کے پہیے جو جام کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سیاسی طوفان نے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری تقریبا ختم ہوگئی، اندرونی سرمایہ کاری رک گئی، صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا، سیاسی استحکام کے بغیر آپ اربوں، کھربوں ڈالر جھونک دیں، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، اس لیے سیاسی استحکام لانے کے لیے ہم سب، ریاست پاکستان اور اس کے ادارے یکسو ہیں کہ سیاسی استحکام لائیں گے تو یہ معاملہ آگے چلے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ غریب آدمی پس گیا ہے، مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ نہ کیا گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری بہت بڑی ذمے داری ہے کہ کم از کم اس کی تنخواہ میں اتنا اضافہ کریں کہ جس سے وہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکے اور ان کی بنیادی ذمے داریوں کو پورا کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے پنشنرز ہیں، اس مہنگائی سے ان کی پنشنز آدھی سے بھی کم رہ گئی ہیں، تنخواہیں آدھی سے بھی کم ہوگئیں، اس لیے ہم نے ان کا خیال کرنا ہے، یہ جو ایشوز ہیں جو آج آپ کے سامنے پیش ہوں گے، آپ نے اس پر رائے دینی ہے، پھر اس کے مطابق ہم آگے چلیں گے۔

ایک دوسرے کے قریب ہونے پر سائرہ اور شہروز پر ’بے حیائی‘ پھیلانے کا الزام

سری لنکن کرکٹر گوناتھیلاکا آسٹریلیا میں ریپ ٹرائل کا سامنا کریں گے

سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ کا رخ تبدیل ہوکر پاکستان کی طرف مڑ گیا، حکام الرٹ