اسکول طالبات کو زہر نہیں دیا گیا، سازش میں غیر ملکی ’دشمن‘ ملوث تھے، ایران کا الزام
ایران نے کہا ہے کہ اسکول طالبات کو زہر دینے کے الزامات کی تحقیقات کے دوران اس چیز کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی انٹیلی جنس کی وزارت نے غیر ملکی ’دشمنوں‘ اور مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ طالبات کو زہر دینے کے مشتبہ واقعات پر خوف پھیلا رہے ہیں۔
مشتبہ حملوں کی لہر نے ہزاروں اسکول طالبات کو متاثر کیا تھا اور ملک بھر میں عوامی غم و غصے کو ہوا دی تھی جب کہ اس سے قبل حجاب کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں پولیس کے ہاتھوں ایک نوجوان خاتون کی موت کے بعد ایران کے مذہبی حکمرانوں کے خلاف مہینوں تک مظاہرے جاری رہے تھے۔
سرکاری میڈیا کی جانب سے سامنے آنے والی وزارت کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بحران کو ہوا دینے میں دشمنوں کا کردار یقینی اور ناقابل تردید ہے، دشمن افراد، گروہوں اور مغربی میڈیا، غیر ملکی سیاست دانوں اور عالمی اداروں نے خاص طور پر فارسی زبان میں گزشتہ کچھ مہینوں میں اس معاملے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
رپورٹ میں طلبا کی شرارت اور بڑے پیمانے پر ہسٹیریا کو معاملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا گیا کہ ان فیلڈ فائنڈنگز اور لیبارٹری تحقیقات میں کوئی ایسال زہریلا مواد نہیں پایا گیا جو پوائزننگ کا سبب بن سکتا ہے اور نہ ہی کوئی موت ہوئی ہے اور نہ ہی طویل مدتی جسمانی تکلیف ہوئی۔
رپورٹ میں نامعلوم مخالفین پر پروپیگنڈہ ویڈیوز تیار کرنے کرکے خوف کو ہوا دینے کا الزام لگایا گیا ہے اور ان افراد، گروہوں، میڈیا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا انتباہ کیا گیا ہے جنہوں نے اس کا الزام حکومت پر لگایا اور ملک دشمنوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
حکام نے اسلامی جمہوریہ کے ’دشمنوں‘ پر الزام لگایا کہ وہ علما اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرنے کے لیے مشتبہ حملوں کا استعمال کر رہے ہیں لیکن ان سخت گیر گروہوں پر بھی شکوک و شبہات کا اطہار کیا گیا جو اسلام کی اپنی تشریح کے خود ساختہ محافظ کے طور پر کام کرتے ہیں۔
سرگرم سماجی نیوز ایجنسی ہرانا کے مطابق مشتبہ زہر کا معاملہ سب سے پہلے نومبر میں مقدس شہر قم میں سامنے آیا تھا جس کے بعد ایران کے 31 میں سے 28 صوبوں تک پھیل گیا تھا، ان واقعات کے سامنے آنے کے بعد کچھ والدین اپنے بچوں کو اسکول سے نکالنے اور احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ اسکول طالبات اس احتجاج میں شامل ہوئی تھیں جو اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہوا تھا۔