پاکستان

انتخابات فنڈز: اسپیکر کا چیف جسٹس کو خط، عدالت پر ’تحمل کا مظاہرہ‘ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے دائرہ کار کے احترام پر زور

عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازع قومی مفاد کے لئے نہایت تباہ کن ہے، راجا پرویز اشرف
| |

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو لکھے خط میں عدالت عظمیٰ پر زور دیا ہے کہ وہ ’تحمل کا مظاہرہ کرے‘ اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے دائرہ کار کا احترام کرے۔

آج قومی اسمبلی اجلاس کے دوران راجا پرویز اشرف کہا تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھیں گے جس میں انہیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات اور اس سلسلے میں فنڈز کے اجرا سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کے بارے میں ایوان کے ارکان کے جذبات اور خیالات سے آگاہ کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن، حدیث، نعت اور قومی ترانے سے کیا گیا جس کے بعد اراکین نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات اور اس سلسلے میں فنڈز کے اجرا سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کے بارے اپنی آرا کا اظہار کیا۔

راجا پرویز اشرف نے اس چیف جسٹس کو خط لکھنے کا فیصلہ قومی اسمبلی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں اراکین سے رائے لینے کے بعد کیا تھا جب کہ دوران اجلاس پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ(ن) کے محمد برجیس طاہر سمیت متعدد قانون سازوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی پر زور دیا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے یہ فیصلہ وفاقی کابینہ کے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فنڈز جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی سمری دوبارہ پارلیمنٹ کو بھیجنے کے فیصلے کے بعد کیا گیا تھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ایک سینئر ممبر سمیت دیگر کی باتیں ہم نے سنیں، اس وقت ہمارا ملک بڑی ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے، میں آپ سے ایوان کی جانب سے سامنے آنے والی اس تجویز پر رائے لینا چاہتا ہوں کہ تمام ممبران کے جذبات و احساسات اور ان کے خیالات خط کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام جج صاحبان تک پہنچاؤں۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں، میں ایوان کی رائے لینا چاہتا ہوں جس پر اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کی تائید کی، اسپیکر نے کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ اس سلسے میں خط آج ہی چیف جسٹس اور دیگر ججز کو لکھوں۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 189 اور 190 کی رو سے اُن پر عمل درآمد درکار نہیں، رقم دینے کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب وزیراعظم اور حکومت پر قومی اسمبلی کا عدم اعتماد نہیں، 4، 14 اور 19 اپریل کے تین رُکنی بینچ کے احکامات چار ججوں کی اکثریت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔

اسپیکر نے خط میں لکھا کہ اختیارات کی دستوری تقسیم پر پختہ یقین رکھتے ہیں، عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہر ادارہ دوسرے کے اختیارکا احترام کیاجائے، ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازع قومی مفاد کے لئے نہایت تباہ کن ہے، قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لئے رقم رکھی جائے گی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے نفاذ کے پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمان کے اختیار میں کئی بار مداخلت دیکھ چکے ہیں، رقم کے اجراکے لئے بار بار کے حکم سے غیرضروری تنازعہ قومی مفاد کے لئے نہایت تباہ کن ہے، قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لئے رقم رکھی جائے گی۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ آئین کے نفاذ کے پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمان کے اختیار میں کئی بار مداخلت دیکھ چکے ہیں، افسوسناک کے زیادہ تر اعلی عدلیہ نے غیرجمہوری مداخلت کی توثیق کی، پاکستان کے عوام نے خون اور قربانیاں دے کر ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی اور ہمیشہ فتح مند ہوئے، پاکستان کے عوام نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے،افسوس ہے کہ زیادہ تر عدلیہ نے اپنی بندوقوں کا رُخ سیاستدانوں کی طرف ہی رکھا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمان کی جدوجہد سے ہی آزادی حاصل ہوئی، آرٹیکل 2 اے کی رو سے قرارداد مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے، قراردادمقاصد بلاشک وشبہ پارلیمان کی بالادستی کا اعلان کرتی ہے، قرارداد مقاصد بابائے قوم قائداعظم کے وژن کا مظہر ہے، قرارداد مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے، اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔

خط کے متن کے مطابق عدلیہ اور انتظامیہ قومی اسمبلی کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتی،قومی اسمبلی کے مسترد کرنے کے باوجود انتظامیہ کو رقم جاری کرنے کا کہنا ٹرائی کاٹومی کے اصول کے منافی ہے، سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیاجائے، چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان انفرادی اور اجتماعی طورپر پارلیمنٹ کے دائرے میں مداخلت نہ کریں۔

اسپیکر نے اپنے میں کہا کہ آئین کی سربلندی، تحفظ ،دفاع اور جمہوری اقدار کے لئے ہم سب کو مل کرکام کرنا ہوگا، دستوری تقسیم کے مطابق تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کو یقینی بنانا چاہیے، آئینی دائرے میں رہنے سے ہی ریاست کو اداروں کے درمیان تنازعات سے بچایا جاسکتا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے خط کی نقول اٹارنی جنرل پاکستان اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہیں۔

چند عناصر کی ضد کی وجہ سے پارلیمان کی بار بار توہین کی جارہی ہے، بلاول بھٹو

قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس وقت ملک میں چند عناصر کی ضد کی وجہ سے تمام اداروں اور آئین کی ’ماں‘ پارلیمان کی بار بار توہین کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں کابینہ میں تھا تو وزیر قانون اور اٹارنی جنرل وضاحت کر رہے تھے کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے جو حالیہ فیصلہ آیا ہے اس میں کیا لکھا گیا ہے تو مجھے تعجب ہوا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ادارہ جس کو ہم سب کا تحفظ کرنا ہے، آئین کی حفاظت کرنی ہے وہ کیسے لکھ سکتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلے کو بھول جائیں اور عدالت کے اقلیتی فیصلے کو تسلیم کریں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنا اقلیتی فیصلہ اکثریتی ثابت کرکے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی ہفتوں سے ملک میں تماشا چل رہا ہے اور آئینی بحران پیدا کیا گیا ہے، سپریم کورٹ اپنا اقلیتی فیصلہ اکثریتی ثابت کرکے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اقلیتی ججز کی طرف سے خیبرپختونخوا کی حد تک 90 روز کی شق تک عملدرآمد نہیں ہو رہا، جہاں تک 30 اپریل یا 14 مئی کا فیصلہ ہے تو سپریم کورٹ کے ججز نے بھی 90 روز کی مدت کو کھینچا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ یہ جو کوشش کی جارہی ہے کہ ہم آئین کے خلاف کوئی قدم اٹھانا چاہتے ہیں، لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نہ تو 90 روز اور نہ ہی کسی اور صورتحال میں ہم آئین کی خلاف ورزی چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ آئین پر عملدرآمد کرے، ان کا یہ کام نہیں کہ ہمارے آئین میں تبدیلیاں لائیں۔

پیپلز پارٹی چیئرمین نے کہا کہ ہم نے اس آئین کو بنایا تاکہ وفاق کو جوڑیں اور تمام صوبوں کو اپنے حقوق دلائیں اور تمام اداروں کی عزت اور خیال رکھا جائے، عدالت وزیراعظم کو ایسا حکم کیسے دے سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی میں بھی کسی آمر یا چیف جسٹس کے کہنے پر آئین کو نہیں توڑا اور آج بھی اگر اعلیٰ عدلیہ کہتی ہے کہ پارلیمان کے حکم کو نظرانداز کیا جائے تو ہم اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

بلاول نے کہا کہ پارلیمان کے پاس ایک ہی چیز ہے جو کوئی بھی ادارہ اس سے نہیں لے سکتا، پارلیمان کو فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کے عوام کا پیسا کہاں اور کیسے خرچ ہونا ہے، ہم اس مقدس ادارے کے حکم کے پابند ہیں کسی اور ادارے کے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں سپریم کورٹ کے آخری خط میں ’توہین پارلیمان‘ ہوئی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک ادارہ اپنے اوپر ذمہ داری لے اور ہمیں حکم کرے کہ آئین توڑو، پارلیمان کی بات نہ مانو۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی پارلیمان یا اس کے کسی رکن کے استحقاق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کے لیے استحقاق کمیٹی موجود ہے، اس لیے میری رائے ہے کہ اس دھمکی آمیز خط کو استحقاق کمیٹی میں بھیجا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہم سب کو جوابدہ ہیں اور جب ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو وہ ہم سب پر تنقید ہوتی ہے، اس پارلیمان پر تنقید ہوتی ہے اور جب اعلیٰ عدلیہ میں نازیبا الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو وہ ایک آدمی کی توہین نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم کی توہین ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ججز کے جو بھی خیالات ہوتے ہیں، ہم ان کو عزت سے پکارتے ہیں اس لیے ان کو بھی چاہیے کہ ہمیں عزت سے پکاریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم فور تھری کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، اس لڑائی اور آئینی بحران میں پاکستان کے عوام اور معیشت کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ سیکیورٹی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر عدلیہ اپنی حدود اور پارلیمان اپنی حدود میں آجائے تو مذاکرات کے معاملات پر اتحادیوں کو قائل کرنے میں آسانی ہوگی۔

فنڈز کے اجرا کا غیرآئینی کام کرنے کا کہا جا رہا ہے،ایوان رہنمائی کرے، وزیر خزانہ

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ہمیں فنڈز جاری کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے جہ غیر آئینی کام ہے، میں ایوان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرے۔

اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ عام انتخابات 2023 کے لیے رواں سال کے بجٹ میں مختص کی گئی رقم صرف 5 ارب روپے تھی، گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران الیکشن کمیشن پاکستان کے ساتھ جو بات چیت ہوئی، اس میں اس نے عام انتخابات کے لیے 54 ارب روپے کی ڈیمانڈ کی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ جب وزارت خزانہ کی جانب سے الیکشن کمیشن سے بات کی گئی تو کمی پیشی کے بعد 47.4 ارب کا حتمی فیگر طے ہوا، اس کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں، میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ 63-اے کے تحت آئین کو دوبارہ لکھا گیا، یہ اس کا نتیجہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر 63-اے کو ری رائٹ نہ کیا جاتا تو پنجاب میں حکومت چل رہی تھی، وہ اپنی مدت پوری کرتی اور پھر ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن ہوتے، اس پیش رفت سے کافی خرابیاں پیدا ہوئیں، 63 اے کی نئی تشریح پر آج تک دنیا حیران ہے۔

انہوں نے کہا دو اسمبلیوں کی تحلیل ملک میں افرا تفری پھیلانے کی کوشش تھی، اس کے بعد الیکشن کمیشن سے پوچھا گیا کہ دو صوبوں میں الگ الیکشن سے کتنے اضافی اخراجات ہوں گے، اس پر انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے 14.4 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسے میں جب ایک پٹیشن دائر ہوئی، 4 اپریل کو ایک حکم آیا، اس ایوان نے 6 اپریل کوایک قرار داد پاس کی جس کے مطابق کہا گیا کہ ہم یہ ادائیگی نہیں کریں گے جس کی وجہ سے وفاقی حکومت، وزارت خزانہ پابند ہو گئی کہ ہم یہ ادائیگی نہیں کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوچ بچار کے بعد ہم آئین کے تحت اس کو کابینہ میں لے گئے، کابینہ نے اس کی منظوری دی، پھر ہم اس کو اسمبلی میں آئے، ایوان نے کہا کہ ہم اس کو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی نہیں مانتے، یہ تو چار تین کا فیصلہ ہے، ایوان اس کو نہیں مانتا، اس نے اس منی بل کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ایک اور حکم اْیا جس میں کہا گیا کہ آپ یہ ادائیگی کریں، اسٹیٹ بینک یہ ادائیگی کرے، اسٹیٹ بینک پیسے جاری نہیں کرسکتا، اس کا ٹرسٹی اور آپریٹر وزارت خزانہ ہے، اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ اس نے 21 ارب روپے مختص کردیے ہیں، لیکن بینک کے پاس پیسے جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ منی بل مسترد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل نہیں ہے، اس ایوان نے سوچ سمجھ کر فنڈز کے اجرا کو مسترد کیا، ایوان نے ادائیگی کو دوٹوک انداز میں روک دیا، یہ ایوان 3 مرتبہ اپنا فیصلہ سنا چکا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ملک میں الیکشن 90 روز میں نہیں ہو رہے، پہلے بھی الیکشن تارخیر کا شکار ہوچکے ہیں اور ابھی بھی 90 روز کا وقت گزر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مردم شماری پر 35 ارب روپے خرچ کر رہا ہے، 2017 میں بھی اس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، جو تماشے ہم اس وقت کر رہے ہیں تو کیا پاکستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے؟ پاکستان اس وقت ایک بدترین معاشی بحران سے نکل رہا ہے جس میں اسے اس حکومت نے نہیں گزشتہ حکومت نے ڈالا، ہماری حکومت نے اس ملک کو دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بنادیا تھا جو اب 47ویں معیشت بن چکا ہے جو رونے کا مقام ہے۔

انہوں نے کہا اگر الیکشن ایک دن میں ہوں، الیکشن ایک دن میں ہو سکتے ہیں، کدھر ہے حب الوطنی اور ملک کی فکر، کیا ہوجائے گا اگر الیکشن تین چار مہینے بعد ہوجائیں گے، الیکشن اکتوبر میں ہونے دیں، کیا پریشانی ہے، اس ملک کو تباہ کرنے والوں کو بے نقاب کرنا چاہیے، یہ چند بندوں کا کھیل تھا جنہوں نے پاناما کا ڈرامہ کیا، نواز شریف کو نااہل کیا، مجھ پر ٹیکس فائل نہ کرنے کا جھوٹا الزام لگایا، ہم کوشش کر رہے ہیں اور دنیا پریشان ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کیوں نہیں کیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ میں کبھی کسی غیر آئینی کام کا مشورہ نہیں دوں گا، ہمیں جو کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے وہ غیر آئینی کام ہے، آپ یہ فرض نہیں کرسکتے کہ آپ جائیں، فنڈز جاری کردیں، ایوان میں بیٹھے لوگ کوئی غلام ہیں جو جون میں اس کی منظوری دے دیں گے، میں ایوان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرے۔

ایوان حکم دے چکا، انتخابات کے لیے رقم نہیں دیے جا سکتے، اعظم نذیر تارڑ

قبل ازیں اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیرر تارڑ نے کہا کہ پنجاب انتخابات کیس میں 7رکنی بینچ میں سے 4 ججز نے پٹیشن خارج کردی، معاملہ اس ایوان میں بھی زیر بحث آیا، ایوان نے ایک قرارداد میں کہا کہ یہ ایک سیاسی مقدمہ تھا، یہ قانونی اور آئینی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی مقدمہ بھی تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کو جس طرح سے ڈیل کیا گیا، اس پر بھی یہاں تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ایوان 4 ججز کے فیصلے کو مانتا ہے، ایوان نے وفاقی حکومت کو بھی یہ ہدایت دی کہ وہ اقلیتی فیصلے میں جاری ہدایت پر عمل کے پابند نہیں ہوں گے، جب بھی کوئی معاملہ ہوگا تو اس معزز ایوان سے رائے لی جائے گی۔

وزیر قانون نے کہا کہ بعد کی سماعتوں میں حکم دیا گیا کہ الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کیے جائیں، کابینہ میں جب یہ حکم آیا تو اس نے وزارت خزانہ کی سفارش پر اس ایوان میں ایک بل پیش کیا جسے ایوان نے مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ دوبارہ جب معاملہ سپریم کورٹ کو رپورٹ کیا گیا تو انہوں نے اسٹیٹ بینک کو حکم دیا کہ وہ 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرے، وزارت خزانہ سے کہا گیا کہ وہ اس کی منظوری بعد میں قومی اسمبلی سے لے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم آئین کا مطالعہ کریں تو یہ بات درج ہے کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں سے چارجڈ ایکسپینس کے علاوہ ہر رقم اس ایوان سے منظور کرانا ضروری ہے، ایوان اس بارے میں اپنی رائے دے چکا تھا، اس کے بعد دوبارہ سوچ بچار کے بعد اسے ایوان میں پیش کیا گیا، آئین پاکستان کے تحت یہ اس ایوان کا کُلی اختیار ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ایوان نے اس فنڈز کی ڈیمانڈ کو مسترد کیا۔

وزیر قانون نے کہا کہ جب یہ صورتحال سپریم کورٹ کے سامنے رکھی گئی تو کہا گیا کہ ڈیمانڈ مسترد ہونے سے یہ لگ رہا ہے کہ وزیراعظم ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، اس کے بعد انہوں نے دوبارہ حکم دیا کہ یہ کیسے ہوگیا، اس کو ٹھیک کیا جائے، اس کو دوبارہ منظور کیا جائے، مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان جو رقم جاری کرنے کا معاملہ ہے اس کو پس پشت ڈال کر فنڈز جاری کردیے جائیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ آج ایک بار پھر کابینہ میں اس معاملے پر غور کیا گیا، آئین کے مطابق فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں سے فنڈز کا اجرا قومی اسمبلی کی منظوری سے مشروط ہوگا، ایوان پہلے اس کو مسترد کرچکا، ان حالات میں یہ اس معزز ایوان کا آئینی اختیار ہے کہ وہ اس کو منظور یا مسترد کرے، اس لیے اس معاملے کو آج بھی غور و خوض کے لیے ایوان میں پیش کیا جا رہا ہے۔

’سپریم کورٹ کا کام ثالثی کرانا نہیں‘، حکومتی اتحاد کا ایک ہی دن انتخابات کرانے کا اعلان

پاکستان، نیوزی لینڈ ورلڈ کپ سے قبل اہم ون ڈے سیریز کیلئے تیار

’صلاح الدین ایوبی‘ اس سال ترکیہ، اگلے سال پاکستان میں ریلیز ہوگا، ہمایوں سعید