دنیا

اقوام متحدہ کا طالبان سے خواتین عملے پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ

اقوام متحدہ کی متعدد خواتین اہلکار پہلے ہی اپنی نقل و حرکت پر پابندیوں بشمول ہراسانی، دھمکیوں اور حراست کا سامنا کر چکی ہیں، ترجمان

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے اس کی خواتین ملازموں کو ملازمت سے روکنے کے عمل کو قبول نہیں کیا جا سکتا جو کہ حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

عالمی نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک دن قبل اقوام متحدہ کو طالبان کی طرف سے مطلع کیا گیا کہ افغان خواتین کو عالمی ادارے کے لیے مزید کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اقوام متحدہ کی طرف سے یہ اعلان ملک میں موجود اس کے مشن کی جانب سے اس تشویش کا اظہار کرنے کے بعد سامنے آیا کہ مشرقی صوبہ ننگرہار میں خواتین عملے کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مطالبہ کیا کہ خواتین کو ملازمت سے روکنے کی پابندی فوری طور پر ختم کی جائے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان نے سیکرٹری جنرل کی بنا پر کہا کہ ’یہ خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔‘

تاہم طالبان حکام نے اس حوالے سے تاحال کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔

اقوام متحدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی متعدد خواتین اہلکار پہلے ہی اپنی نقل و حرکت پر پابندیوں بشمول ہراسانی، دھمکیوں اور حراست کا سامنا کر چکی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ نے افغانستان میں موجود مرد و خواتین عملے کو مزید نوٹس جاری ہونے تک دفتر نہ جانے کی ہدایت کی ہے۔

خیال رہے کہ افغان طالبان نے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ خواتین کو کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے، مردوں کے بغیر سفر کرنے اور پارکوں میں جانے سے روک دیا گیا ہے اور انہیں سر سے پاؤں تک پردہ کرنے پر بھی پابند کیا گیا ہے۔

افغان خواتین کو پہلے ہی قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا جس سے انسانی امداد کی فراہمی میں خلل پیدا ہوگیا جہاں اس پابندی سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے لیے کام کرنا شامل نہیں تھا۔

آج اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ طالبان کے حکم کے مطابق کسی افغان خاتون کو افغانستان میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور یہ کہ اس اقدام کو فعال طور پر نافذ کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی ملازمت پر پابندی عالمی قوانین کے تحت غیرقانونی ہے جس کو اقوام متحدہ تسلیم نہیں کرے گا۔

افغانستان کے لیے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ روزا اوتن بائیفا اقوام متحدہ کے احتجاج کو ریکارڈ کرانے اور ایسے فیصلے کو فوری طور پر واپس لینے کے لیے طالبان حکام سے بات کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ اپنے رکن ممالک، ڈونر کمیونٹی اور انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کو بھی اس میں شامل کر رہا ہے۔

خصوصی نمائندہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں کسی دوسری حکومت نے کبھی بھی خواتین کو صرف اس لیے تنظیم میں کام کرنے سے منع کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ خواتین ہیں، مزید کہا کہ یہ فیصلہ خواتین کے خلاف حملہ، اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف وزری ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کا تقریباً 39 سو ملازمین کا عملہ ہے جس میں تقریباً 33 سو افغان اور 600 بین الاقوامی ملازمین شامل ہیں جبکہ مجموعی طور پر 600 افغان اور دیگر ممالک کی 200 خواتین بھی ملازم ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی پابندیوں خاص طور پر تعلیم اور این جی او کے کام پر پابندی کی وجہ سے اس کو عالمی برادری کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

ادھر طالبان حکام نے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار ظاہر نہیں کیے اور دعویٰ کیا کہ مبینہ طور پر خواتین اپنا حجاب صحیح طریقے سے نہیں پہن رہیں۔

فلم ’جاوید اقبال‘ کا نام تبدیل، سینسر بورڈ میں منظوری کیلئے دوبارہ پیش

پنجاب کے انتخابات: ایک ہفتے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران عدالت میں کیا کچھ ہوا؟

برطانوی سیکریٹری داخلہ کے پاکستانی مردوں کے بارے میں ریمارکس گمراہ کن ہیں، دفتر خارجہ