اسرائیلی فورسز کا حملہ، مسجد اقصیٰ کے احاطے سے 350 سے زائد افراد گرفتار
اسرائیلی پولیس نے طلوع آفتاب سے قبل یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں درجنوں نمازیوں پر حملہ کرنے کے بعد 350 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسیوں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق پولیس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق پولیس نے کہا کہ انہوں نے مشرقی یروشلم کے شہر میں مسجد کے اندر سے 350 سے زائد افراد کو گرفتار کر کے باہر نکالا ہے جنہوں نے پرتشدد رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والوں میں نقاب پوش افراد، پتھر پھینکنے اور آتش بازی کرنے والے اور مسجد کی بے حرمتی کرنے والے افراد شامل ہیں۔
قبل ازیں اسرائیلی پولیس نے آج صبح طلوع فجر سے قبل یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں درجنوں نمازیوں پر حملہ کردیا جسے اسرائیلی پولیس نے ’فسادات کا ردعمل‘ قرار دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس واقعے کے ردعمل میں مقبوضہ مغربی کنارے میں شدید احتجاج دیکھنے میں آیا، اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ جنوبی قصبوں میں سائرن بجنے کے بعد غزہ سے اسرائیل کی جانب 9 راکٹ فائر کیے گئے۔
مقبوضہ مغربی کنارے اور یروشلم میں گزشتہ ایک سال کے دوران تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور رواں ماہ کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان، یہودیوں کا مذہبی تہوار ’پاس اوور‘ اور مسیحیوں کا تہوار ’ایسٹر‘ لگ بھگ ایک ساتھ منایا جارہا ہے۔
فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسرائیلی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ربڑ کی گولیاں داغے جانے اور تشدد سے 7 فلسطینی زخمی ہوئے جبکہ اسرائیلی فورسز اس کے طبی عملے کو مسجد اقصیٰ جانے سے روک رہی ہیں۔
مسجد کے باہر موجود ایک بزرگ خاتون نے خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کو روتے ہوئے بتایا کہ ’میں ایک کرسی پر بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی کہ انہوں نے اسٹن گرینیڈ پھینکے اور ان میں سے ایک میرے سینے پر بھی لگا‘۔
اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ آتش بازی، لاٹھیوں اور پتھروں سے لیس نقاب پوش مشتعل افراد کی مسجد میں موجودگی کے سبب انہیں مجبوراً مسجد کے کمپاؤنڈ میں داخل ہونا پڑا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جب پولیس اندر داخل ہوئی تو ان پر پتھراؤ کیا گیا اور مسجد کے اندر موجود مشتعل افراد کے ایک بڑے گروپ کی جانب سے آتش بازی کی گئی جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر کی ٹانگ زخمی ہوگئی۔
مسجد اقصیٰ کے احاطے میں حالیہ چند برسوں کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، اس احاطے کو یہودیوں کے لیے ’ٹمپل ماؤنٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فلسطینی گروہوں کی جانب سے نمازیوں پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی گئی ہے جنہوں نے اسے جرم قرار دیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے کہا کہ ’ہم مقدس مقامات پر حدود کی پاسداری نہ کرنے والوں کو خبردار کرتے ہیں، یہ اقدام ایک بڑے دھماکے کو جنم دے گا‘۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے حالیہ امریکی کوششوں میں اردن اور مصر بھی شامل ہیں، دونوں ممالک نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے علیحدہ علیحدہ بیانات جاری کیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز (جن کی فوری طور پر تصدیق نہ ہوسکی) میں شدید آتش بازی دیکھی گئی اور پولیس مسجد کے اندر لوگوں پر تشدد کرتے نظر آئی۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ غزہ سے اسرائیل کی جانب 9 راکٹ فائر کیے گئے، جن میں سے کم از کم 4 روک لیےگیا اور 4 کھلے علاقوں میں گرے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا حملے پر اظہار مذمت
وزیراعظم شہباز شریف نے یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں عبادت میں مصروف فلسطینیوں پر اسرائیلی پولیس کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ وحشیانہ حملہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اسرائیل کو دیے جانے والے استثنیٰ نے تل ابیب کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
بعدازاں دفتر خارجہ نے بھی مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فورسز کے تشدد کی شدید مذمت کی۔
ترجمان دفتر خارجہ کی طرف سے جارہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی کارروائیوں سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی ہے، پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات نہیں ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے وضاحت کی کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔