’ثالثوں‘ کی مخالف سیاسی جماعتوں کو بحران کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی دعوت
سول سوسائٹی کے ایک گروپ نے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کو بدترین سیاسی اور عدالتی بحرانوں میں سے ایک کے پیش نظر ایک میز پر لانے کی کوششیں کرتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کثیرالجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کی ان تجویز میں شرکت اور اگر بدتر سیکیورٹی صورت حال اور مالی رکاوٹوں کی وجہ سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے تو انتخابات سے متعلق آئینی ترامیم کے حوالے سے تعاون کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے معیشت اور انتخابات سمیت مختلف معاملات پر جامع مذاکرات کے لیے ایک دفعہ پھر حکومت کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایجنڈے میں صرف انتخابات رکھے گئے تو وہ خود نہیں بلکہ ان کی ٹیم مذاکرات کرسکتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور پاکستان فیڈریشن آف یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) سمیت درجن بھر سے زائد سول سوسائٹی کی تنظیموں نے ایم پی سی کی تجویز کے لیے عمران خان، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹؤ زرداری کو دعوت نامے بھیج دیے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا اب تک عمران خان نے رضامندی ظاہر کی ہے کہ ان کی جماعت کانفرنس میں شرکت کرے گی جس کی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں نے پہلی کوشش کے طور پر کہا ہے کہ پیر کو ’ثالثوں‘ کی حکمران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی چند جماعتوں سے ملاقات ہوگی، جس کے بعد وہ میڈیا کو آگاہ کرنے کے لیے ملاقات سے متعلق نیوز کانفرنس کریں گے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ انتخابات آئین کے مطابق ہونے چاہیے اور اس مقصد کے لیے وہ حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھنے کو تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکمران سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی اور سیکیورٹی صورت حال پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 30 اپریل کو انتخابات کے انعقاد کی اجازت نہیں دے رہی ہے تو تو آئین میں چند ترامیم کی جائیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اس کے لیے ان کی جماعت آئینی بحران سے بچنے کے لیے حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آئینی خلاف ورزی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں اور اس کے لیے ہم دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کرنے کے لیے حکومت کی مدد کرسکتےہیں۔
پی پی پی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ثالثوں کی جانب سےتمام سیاسی طاقتوں میں اتفاق رائے سے بحران حل کرنے کے لیے اچھی کوشش کی جارہی ہے تاہم یہ کام مشکل ہے۔
’حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے‘
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے نیوز ویب سائٹ اردوڈاٹ کام کو انٹرویو کے دوران ایک سوال پر کہا کہ ’میں حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا اور اگر صرف اںتخابات کے معاملے پر مذاکرات ہوئے تو میں خود نہیں، میری ٹیم شرکت کرے گی‘۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’مذاکرات صرف ایک نکتے انتخابات پر ہونے چاہیے، تاہم میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا جن کو میں چور اور کرپٹ کہتا رہا ہوں‘۔
عمراں خان نے کہا کہ ’اور اگر مذاکرات انتخابات کے لیے نہیں ہوئے تو پھر مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں، آئین کے تحت 90 روز کے اندر انتخابات ہونا ضروری ہے مگر وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، اگر کوئی آئین کی پیروی نہیں کر رہا ہے تو مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور پھر جامع مذاکرات چھوڑیں اور قانون اور آئین کے تحت انتخابات کے انعقاد کی طرف آئیں‘۔