ایرانی وزیر خارجہ کا سعودی ہم منصب کو فون، اہم امور پر تبادلہ خیال
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان کو فون کرکے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
سعودی وزارت خارجہ کی جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر جاری بیان کے مطابقفون کال کے دوران دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ دلچسپی کے امور اور حالیہ سہ فریقی معاہدے کی روشنی میں آئندہ کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھی سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ نے رمضان المبارک کے آغاز کے موقع پر ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا اور تاریخی دوطرفہ مفاہمتی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے جلد ملاقات کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
سعودی وزارت خارجہ نے ٹوئٹرپر پوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایران کے ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کو فون کیا اور دونوں ممالک میں آج سے شروع ہونے والے رمضان کے مقدس مہینے کے موقع پر مبارکباد کا تبادلہ کیا‘۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’دونوں وزرا نے جلد ہی ملاقات کرنے پر اتفاق کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو دوبارہ کھولنے کی راہ ہموار کی جا سکے‘۔سعودی حکام نے کہا تھا کہ ’وزرا کی متوقع ملاقات 10 مارچ کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے پر دستخط کا اگلا مرحلہ ہوگی‘۔
خیال رہے کہ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کرنے اور سفارتخانوں کو کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
2016 میں سعودی عرب میں معروف شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت کے بعد ایرانی مظاہرین کی جانب سے سعودی سفارتی مشنز پر حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔
اس تازہ معاہدے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ ایران اور سعودی عرب 2 ماہ کے اندر اپنے سفارت خانے اور مشن دوبارہ کھولیں گے اور 20 سال قبل دستخط کیے گئے سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر عمل درآمد کریں گے۔
19 مارچ کو ایک ایرانی عہدیدار نے کہا کہ صدر ابراہیم رئیسی کو شاہ سلمان کی جانب سے سعودی عرب کے دورے کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے، تاہم سعودی عرب نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
حسین امیر عبداللہیان نے اسی روز صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’دونوں ممالک نے اپنے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس کے لیے 3 مقامات کی تجویز دی گئی ہے‘، تاہم انہوں نے ان تینوں مقامات کی نشاندہی نہیں کی۔
توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ دنیا میں تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ سعودی عرب اور جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے مغربی حکومتوں کے ساتھ سخت اختلاف رکھنے والے ملک ایران اب بالآخر کئی دہائیوں سے جاری ہنگامہ خیزی کے بعد تعلقات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
گزشتہ ماہ عالمی سیاسی منظر نامے پر ایک تہلکہ خیز پیش رفت ہوئی تھی جب چین کی ثالثی کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔
کئی ماہ پر محیط خفیہ سفارتکاری کے بعد 6 مارچ کو ایرانی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان بیجنگ میں حتمی مذاکرات شروع ہوئے۔ 4 روز تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کے بعد 10 مارچ کو دونوں ممالک نے معاہدے کا اعلان کیا جس کے مطابق اگلے 2 ماہ میں دونوں ممالک اپنے مکمل سفارتی عملے کے ساتھ سفارتخانے کھول لیں گے۔
مشرق وسطیٰ کے ان 2 حریف ممالک کے درمیان ہونے والی اس ڈیل کا جہاں عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا ہے وہیں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے یہ سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ کیا اس معاہدے کے نتیجے میں چین اپنا اثرورسوخ اس علاقے میں بڑھانے میں کامیاب ہو گیا ہے؟ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کتنے محفوظ ہوں گے؟ کیا امریکا کا خطے میں کردار محدود ہو جائے گا؟ اسرائیل سعودی عرب تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا؟ ان تمام سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ ہی سامنے آئیں گے۔