پاکستان

مہنگائی کے مارے عوام متبادل غذائی اشیا کی تلاش میں مشکلات کا شکار

فروری میں کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی سالانہ بنیاد پر دیہاتی علاقوں میں 47 فیصد اور شہری علاقوں میں 41.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے، ادارہ شماریات

رمضان کے مہینے میں ہر سال شہریوں کو کھانے پینے کی اشیا میں مہنگائی کا سامنا ہوتا ہے چاہے وہ گھر ہو، ریسٹورنٹ، کیفے یا دیگر ہر جگہ مہنگائی کا شور ہوتا ہے اور شہری متبادل اشیا کی تلاش شروع کرتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق فروری میں کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی سالانہ بنیاد پر دیہاتی علاقوں میں 47 فیصد اور شہری علاقوں میں 41.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

ڈان نے کیٹررز سے پوچھا کہ کیا ممکن ہے کہ شہری کوکنگ آئل، پیاز اور ٹماٹر جیسی بنیادی غذائی اشیا کا متبادل استعمال کرسکتا ہے۔

برنس روڈ کے مشہور ’فوڈ سینٹر‘کے منیجر حسنین حیدر نے بتایا کہ وہ ٹماٹر، پیاز اور کوکنگ آئل کا متبادل استعمال نہیں کرتے کیونکہ متبادل اشیا سے کھانے کے ذائقے میں فرق پڑتا ہے۔

انہوں نے مہنگائی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ مہنگائی ہر رمضان میں ہوتی ہے، اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی لیکن انتظامیہ کو یہ ساری چیزیں برداشت کرنا پڑتی ہیں تاہم جیسے ہی رمضان ختم ہوگا تو قیمتیں معمول پر آجائیں گی۔

نارتھ کراچی میں ’روہیب پکوان سینٹر‘ کے مالک محمد وسیم کا کہنا تھا کہ اس وقت مہنگی اشیا کوکنگ آئل اور گھی ہے، جس کے لیے ہم کوشش کرتے ہیں جتنا بچا سکے بچالیں۔

ان سے پوچھا گیا کہ میٹھا بنانے کے لیے دودھ کا متبادل کیا استعمال کیا جاسکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ میٹھے خاص کر کھیر اور دیگر کی قیمت کم رکھنے کے لیے ملک پاؤڈر ہماری ترجیح ہوتی ہے۔

برطانیہ سے ڈپلومہ حاصل کرنے والے اس شعبے سے منسلک پروفیشنل بابرافتخار نے تجویز دی کہ بعض اوقات ٹماٹر کے متبادل کے طور پر دہی کا استعمال کیا جاسکتا ہے، ٹماٹر کو سوکھا کر اس کا پیسٹ بنائیں اور کیوبز میں فریز کریں اور ایک کیوب ایک چمچ کے برابر ہو۔

پیاز کے ممکنہ متبادل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کا حقیقی معنوں میں کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

اسکلسٹوں میں بطور کیمپس منیجر خدمات انجام دینے والے بابر افتخار نے کہا کہ مارکیٹ میں فرائی پیاز دستیاب ہے اور اس سے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اگر وہ بھی زیادہ مہنگی ہوتو تازہ پیاز ہی بہتر ہے کیونکہ وہ ہر طرح کی ڈشز کے لیے مناسب نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ فرائیڈ پیاز ایک مخصوص فلیور فراہم کرسکتی ہے لیکن یہ ہر رسیپی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رمضان کے دوران کوکنگ آئل کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور اس کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ہے اور تجویز دی کہ ایئر فرائر مشین کا استعمال کریں جس کے لیے روایتی کھانا بنانے کے طریقوں کے مقابلے میں کم تیل درکار ہوتا ہے۔

بابر افتخار نے بتایا کہ ایئر فرائر کا استعمال کھانے کے دوران تیل کی مقدار کم کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض چیزوں میں گھر میں تیار کیا گیا مکھن بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی مشرقی ممالک میں فرائی کھانوں کے لیے کوٹنگ کے طور پر بیسن کے بجائے چاول کا آٹا استعمال کیا جاتا ہے، بیسن میں پروٹین جبکہ چاول کے آٹے میں کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں اور برصغیر میں پکوڑا بھی چاول کے آٹے کے بجائے روایتی طور پر بیسن سے بنتا ہے۔

گزشتہ 4 برسوں سے مختلف دکان داروں کو گھر کا بنا ہوا کھانا فراہم کرنے والی ایک گھریلو خاتون روبینہ نے بتایا کہ وہ اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں کیونکہ ملک میں بے تحاشا مہنگائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے دکان دار ہم سے کھانا نہیں خریدتے اور اس کی جگہ وہ ملازمین کو کھانے کے لیے 100 روپے دیتے ہیں۔

روبینہ نے کہا کہ میں گزشتہ 3 برسوں سے روزانہ 700 روپے کی بچت کرتی تھی لیکن گزشتہ برس میں روزانہ صرف 300 روپے بچا پائی اور اس میں گیس سلینڈر کی لاگت شامل نہیں ہے۔

اسلام آباد: عدالت نے حسان نیازی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا

کراچی کے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش

سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ کا ٹیلیفونک رابطہ، جلد ملاقات کا عندیہ