پاکستان

امریکا کی حمایت حاصل کرنے کیلئے حکومت اور پی ٹی آئی کی کوششوں میں تیزی

عوامی سطح پر اپوزیشن اور حکمران جماعتیں دونوں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ وہ امریکا سے تعلق قائم کرنے کے لیے زیادہ بےچین دکھائی نہ دیں۔

موجودہ سیاسی بحران کے دوران بھی پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلق کبھی محبت اور کبھی نفرت میں بدلنے کا سلسلہ جاری ہے، عوامی سطح پر اپوزیشن اور حکمران جماعتیں دونوں کوشش کر رہی ہیں کہ وہ امریکا سے تعلق قائم کرنے کے لیے زیادہ بےچین دکھائی نہ دیں لیکن نجی سطح پر دونوں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ’امریکا ہمارے ساتھ ہے‘۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا اور خاص طور پر بائیڈن انتظامیہ دونوں (حکومت پاکستان اور اپوزیشن) سے محتاط فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہے، محکمہ خارجہ کے عہدیداروں سے جب پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے واضح کیا کہ وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت یا رہنما کی نہیں جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کی حمایت کرتے ہیں۔

انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین امریکی رپورٹ میں بھی اس مؤقف کا اعادہ کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے لیکن اب تک اس میں عمل دخل کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔

امریکی اسکالرز اور قانون سازوں نے بھی اس تنازع میں فریق بننے سے گریز کیا ہے تاہم امریکی حکام کے برعکس انہوں نے پاکستان کی صورت حال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں کوئی محتاط رویہ اختیار نہیں کیا۔

امریکا کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے رواں ہفتے 2 ٹوئٹس کیں جس میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان، سپریم کورٹ سے عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دینے اور آئندہ چند روز میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت پاکستان نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح کے اقدامات پاکستان میں سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے بحران کو مزید گہرا کریں گے جب پہلے ہی کچھ ممالک کی جانب سے طے شدہ سرمایہ کاری کو معطل کیا جاچکا ہے۔

توقع کے مطابق پاکستان نے زلمے خلیل زاد کے تبصروں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جبکہ وزارت خارجہ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ’بِن مانگے مشورے نہ دیں‘۔

تاہم پاکستانی حکام نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جو رواں ہفتے 20 مارچ کو واشنگٹن میں جاری کی گئی۔

مذکورہ رپورٹ موجودہ حکومت کے پہلے سال کے ساتھ ساتھ عمران خان کی حکومت کے آخری مہینوں کا بھی احاطہ کرتی ہے، اس لیے دونوں فریق اس کی اپنی پسند کے مطابق تشریح کر رہے ہیں، کچھ حلقے اسے پی ڈی ایم حکومت کی حمایت کے اظہار کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ دیگر افراد اس میں عمران خان کے لیے نرم گوشہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مذکورہ رپورٹ موجودہ حکومت کی حمایت کرتی ہے، ان کے اِس دعوے کی بنیاد اِس رپورٹ میں شامل ایک پیراگراف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو فوجی بغاوت نہیں بلکہ پارلیمانی طریقہ کار کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔

رپورٹ میں شامل ایک اور پیراگراف میں کہا گیا کہ ’سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل نے بیان دیا کہ ایک ٹاک شو کے دوران فوج کے بارے میں مبینہ طور پر ’جھوٹے، نفرت انگیز اور فتنہ انگیز‘ تبصرے کرنے کے الزام میں انہیں 9 اگست کو گرفتار کیے جانے کے بعد پولیس نے ان پر تشدد اور زدوکوب کیا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے ٹوئٹر پر فوج مخالف تبصروں کی وجہ سے گرفتاری کے بعد حکام پر خود کو برہنہ کرکے مارنے پیٹنے کا الزام عائد کیا۔

لیکن موجودہ حکومت کے حامیوں نے ان دعوؤں کی توثیق سے گریز کیا اور نشاندہی کی کہ رپورٹ میں ’بیان‘ اور ’مبینہ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

تاہم دونوں فریقین نے اس رپورٹ کو اُس وقت یکساں طور پر مسترد کیا جب اِس میں ایک جگہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 29 مئی کے حکم نامے کا حوالہ دیا گیا، اس حکم نامے میں عمران خان اور شہباز شریف کو غیر اعلانیہ طور پر جبری گمشدگیوں کی کھلی منظوری کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔

رپورٹ میں ایک اور جگہ شاہ زین بگٹی کے اس دعوے کا بھی تذکرہ کیا گیا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی کے عہدے سے اُس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب پی ٹی آئی حکومت، بلوچستان سے متعلق اپنے وعدوں سے مکر گئی تھی۔

پنجاب: عمران خان کو ملنے والی دھمکیوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ

’میں آپ کے سامنے زندہ سلامت ہوں‘، محمود اسلم نے جعلی خبروں کی تردید کردی

بین الاقوامی ثالث کے طور پر ابھرتا چین