دنیا

بھارت: سکھ رہنما کی گرفتاری، پنجاب میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کی بندش میں توسیع

سفارتی حدود اور عملے کی سیکیورٹی کے لیے برطانوی حکومت کی سستی ناقابل قبول ہے، بھارتی وزارت خارجہ امور

بھارتی حکام نے سکھ رہنما کی گرفتاری کے لیے پنجاب ریاست میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹورک کی بندش میں توسیع کردی ہے۔

غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق بھارتی حکومت کی طرف سے موبائل اور انٹرنیٹ کی بندش میں اس وقت اضافہ کیا گیا ہے جب ممتاز سکھ رہنما امرت پال سنگھ کے حامیوں نے لندن کے بعد سان فرانسیکو میں بھارتی قونصلیٹ کا محاصرہ کیا، تھوڑ پھوڑ کی اور پرچم اتارا۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست پنجاب میں سکھ رہنما امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے لیے آپریشن شروع کیا گیا ہے جو کہ کئی ماہ سے سکھوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کرنے والی ’خالصتان تحریک‘ میں نمایاں ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تاحال 144 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن امرت پال سنگھ کا کوئی پتا نہیں ہے۔

ادھر حکام کی طرف سے انٹرنیٹ کی بندش میں اگلے 24 گھنٹوں کا اضافہ کردیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سان فراسنیکو میں بھارتی کونسلیٹ میں کچھ لوگ توڑ پھوڑ کر رہے ہیں اور عمارت کے باہر رکھی تمام رکاوٹوں کو ہٹا رہے ہیں۔

بھارتی کونسلیٹ کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین نے ’فری امرت پال سنگھ‘ کے نعرے بلند کیے۔

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ ویڈیو کلپ پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے امرت پال سنگھ کے حامیوں کی طرف سے توڑ پھوڑ کرنے پر برطانوی سفارت کار کو طلب کیا گیا ہے۔

اے ایف پی فیکٹ چیک کی طرف سے ویریفائیڈ کی گئی ویڈیوز میں ایک شخص کو سفارت خانے کی بالکونی پر لگے بھارتی پرچم کو اتارتے دیکھا جا سکتا ہے جہاں لوگوں کا ایک ہجوم خالصتانی جھنڈے اٹھائے کھڑے ہیں۔

بھارتی حکومت نے ہمیشہ غیرملکی حکومتوں سے سخت گیر سکھ کارکنان کی سرگرمیوں پر شکوہ کیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر مالی دباؤ سے بغاوت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تلواروں، چاقوؤں اور بندوقوں سے لیس امرت پال سنگھ اور اس کے حامیوں نے گزشتہ ماہ ایک پولیس اسٹیشن پر دھاوا بولا جہاں 30 سالہ سکھ رہنما کے معاونین میں سے ایک کو مبینہ حملہ اور اغوا کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

امرتسر میں پولیس کی سخت کارروائی کے دوران جھڑپوں میں متعدد اہلکار زخمی ہوگئے جس نے حکام کو مزید دباؤ ڈالنے پر مجبور کردیا۔بھارتی حکام نے بالخصوص کشمیر کے باغی علاقوں میں اکثر موبائل انٹرنیٹ سروسز بند کر دیے ہیں۔

نئی دہلی نے برطانوی سفارت کار کو طلب کرلیا

اے این آئی نیوز ایجنسی کے مطابق بھارتی حکومت نے لندن میں کمیشن کی مبینہ توڑ پھوڑ کے بعد برطانوی حکومت سے باضابطہ احتجاج درج کرایا ہے۔

گزشتہ روز لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کو کچھ لوگوں کی طرف سے مبینہ توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا جہاں کچھ لوگ زبردستی عمارت میں داخل ہوئے اور بھارتی قومی پرچم اتار دیے۔

بھارتی امور خارجہ کی طرف سے جارہ کردہ بیان میں کہا گیا کہ نئی دہلی میں برطانیہ کے سب سے سینئر سفارت کار کو طلب کیا گیا تاکہ علیحدگی پسندعناصر کی طرف سے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن میں کی گئی کارروائیوں پر کے شدید احتجاج کا اظہار کیا جا سکے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانوی سکیورٹی کی مکمل عدم موجودگی کی وجہ سے ان عناصر کو ہائی کمیشن کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی وضاحت طلب کی گئی اور ڈپٹی ہائی کمشنر کرسٹینا سکاٹ کو اس سلسلے میں ویانا کنونشن کے تحت حکومت برطانیہ کی بنیادی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی گئی۔

بھارتی امور خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ توقع ہے کہ برطانوی حکومت فوری طور پر کارروائی کرکے ملوث افراد کی نشاندہی کے بعد انہیں گرفتار کرکے سزا دے گی اور مستقبل میں ایسے واقع کو دہرانے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو لندن میں بھارتی ہائی کمیشن پر مبینہ طور پر ایک گروپ نے دھاوا بول دیا تھا اور زبردستی داخل ہو کر بھارتی پرچم اتار دیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’برطانوی سیکیورٹی کی مکمل عدم موجودگی، جس کی وجہ سے ان عناصر کو ہائی کمیشن کے احاطے میں داخلے کی اجازت مل گئی، اس حوالے سے ان سے وضاحت طلب کی گئی‘۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ ’ڈپٹی ہائی کمشنر کرسٹینا اسکاٹ کو اس بابت ویانا کنونشن کے تحت برطانوی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کروائی گئی ہے‘۔

بھارتی وزارت خارجہ امور نے کہا کہ ’بھارت کے لیے برطانیہ میں اپنے سفارتی حدود اور عملے کی سیکیورٹی کے لیے برطانوی حکومت کی سستی ناقابل قبول ہے‘۔

بھارت میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ایلکس ایلیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان میں اس واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ سفارت خانے کی حدود اور عملے کے خلاف توہین آمیز اقدامات مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت نے 58 فیصد سکھوں اور 39 فیصد ہندوؤں پر مشتمل پنجاب میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں مشتعل علیحدگی پسند خالصتان تحریک کے خلاف کارروائی کی تھی اور ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔

بھارت کی جانب سے اس گروپ کی سرگرمیوں کے حوالے سے مختلف حکومتوں سے شکایت کی جاتی رہی ہے اور مؤقف ہے کہ یہ لوگ کشیدگی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بھاری مالی امداد مل رہی ہے۔

’ناقابل برداشت‘: فوج، آرمی چیف کےخلاف بیرون ملک ’فارن فنڈڈ‘ مہم پر وزیراعظم کا اظہار مذمت

انتخابات کی تاریخ نہ دینے پر گورنر خیبر پختونخوا کےخلاف توہین عدالت کی درخواست

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورۂ پاکستان کا شیڈول تبدیل، 5 ون ڈے اور 5 ٹی 20 کھیلنے پر اتفاق