پاکستان

سپریم کورٹ کا پنجاب، خیبرپختونخوا میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم

سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا۔
|

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا جس میں دونوں صوبوں میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا یہ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے 23 فروری کے حکم میں اضافی نوٹ تحریر کیے تھے اور دونوں ججوں نے بینچ کے 3 ارکین کے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور از خود نوٹس کو مسترد کر دیا۔

سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دونوں صوبوں میں 90 روز میں انتخابات ہونے ہیں، پارلیمانی جمہوریت میں انتخابات اہم عنصر ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا کی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت سے مشاورت کرے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔

اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جہاں گورنر نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا، وہاں انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی جانب سے ادا کی جانی چاہیے، جہاں گورنر کے حکم سے اسمبلی تحلیل نہیں کی گئی، وہاں عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری صدر کو ادا کرنی ہوگی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات مقررہ مدت کے اندر ہونے ہیں، اس لیے صدر یا گورنر کو انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری جلد، بغیر کسی تاخیر کے، کم سے کم وقت کے اندر ادا کرنی چاہیے۔

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے کہا گیا کہ عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری صدر مملکت کو ادا کرنی تھی کیونکہ گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی تھی۔

حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ عام حالات میں پنجاب میں جنرل الیکشن 9 اپریل کو ہونے چاہئیں جیسا کہ صدر کی جانب سے تاریخ دی گئی لیکن انتخابات کی تاریخ کا اعلان تاخیر سے کیا گیا، اس لیے 90 روز کے اندر صوبے میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ فوری طور پر آئین کے مطابق تاریخ تجویز کرنے کے لیے اپنی پوری کوششیں بروئے کار لائے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر مملکت پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے گورنر خیبر پختونخوا کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صوبے میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی ہدایت کی۔

اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر صوبے کی حکومت آئین کے مطابق چلائی جائے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنوری میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد سے پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں نگراں حکومتوں کے ماتحت ہیں۔

ازخودنوٹس جلد بازی میں لیا گیا، مسترد کرتے ہیں، 2 ججز کا اختلافی نوٹ

سپریم کورٹ کی جانب سے آج مختصر فیصلہ جاری کیا گیا ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا، فیصلے کے مطابق آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، جنرل انتخاب کا طریقہ کار مختلف ہے۔

فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پخونخوا کی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔

جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ منظور الہیٰ اور بے نظیر کیس کے مطابق ازخود نوٹس لینا نہیں بنتا، ہائی کورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے، 90 روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ازخودنوٹس لینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، ازخود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، معاملہ ہائی کورٹس میں تھا تو سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے سکتی تھی، لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی مقدمے کا فیصلہ کرچکی ہے، آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں، ہائی کورٹ میں معاملہ ازخود نوٹس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا، ہائی کورٹس زیر التوا مقدمات کا جلد فیصلہ کریں۔

از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل کمرہ عدالت میں وکلا اور سیاسی رہنما موجود تھے، اس موقع پر میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد بھی فیصلہ سننے کے لیے کورٹ میں موجود تھی جب کہ اس دوران بیرسٹر علی ظفر، فیصل چوہدری، شعیب شاہین، سابق وفاقی وزرا شیریں مزاری ،شیخ رشید، فواد چوہدری سمیت کئی سیاسی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس میں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

ابتدائی طور پر 22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا تاہم 24 فروری کو 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت مکمل کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے سماعت سے معذرت کرلی گئی تھی۔

عدالت عظمیٰ کے آج سامنے آنے والے فیصلے سے طے ہوگیا کہ صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کی صورت میں صدر مملکت، گورنر، یا الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سے کس آئینی ادارے کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا چاہیے۔

گزشتہ روز پورے دن جاری رہنے والی سماعت کے بعد بینچ نے تقریباً 5 بج کر 15 منٹ پر مختصر حکم سنانے کا اعلان کیا، تاہم بعد ازاں فیصلہ آج بروز بدھ تک محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

گزشتہ روز کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے کارروائی میں وقفہ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی قیادت سے مشاورت کریں اور انتخابات کے لیے متفقہ تاریخ طے کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا تھا کہ مشاورت میں مزید وقت لگے گا جب کہ پی ڈی ایم اتحاد میں دیگر پارٹیاں بھی موجود ہیں، حکومتی اتحاد نے تاریخ پر مشاورت کی، حکومتی اتحادی جماعتوں میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے اور مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی مشاورت ہوگی لہٰذا عدالتی کارروائی آگے بڑھائی جائے، مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر دی، بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے، صدر نے الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران اٹارنی جنرل شہزاد الہٰی، اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر عابد زبیری، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی، وکیل گورنر خیبرپختونخوا، پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان، جمعیت علمائے اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ، صدر مملکت کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے بھی دلائل دیے تھے۔


از خود نوٹس کیس کی گزشتہ سماعتوں کا مختصر جائزہ:


چیف جسٹس کا از خود نوٹس

22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔

نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کردی گئی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا ہے، جس میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔


بینچ کے سامنے جائزے کے لیے سوالات:


ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کا تناظر یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئیں تھیں۔

چیف جسٹس کی طرف سے ازخود نوٹس میں لارجر بینچ کے لیے تین سوالات رکھے ہیں جن پر غور کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اہم آئینی معاملے پر وضاحت نہیں ہے اس لیے اس کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سے منسوب بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو درکار تعاون خاص طور پر ضروری فنڈ، عملہ اور سیکیورٹی کی فراہمی نہیں کی جا رہی ہے اور اسی لیے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کے انعقاد سے معذور ہے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ وجوہات کی روشنی میں کہا کہ میری نظر میں یہ مسائل عدالت کی جانب سے فوری توجہ اور حل کی ضرورت ہے، آئین کی کئی شقوں اور الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل

یاد رہے کہ رواں سال 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کر دیے تھے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے ارسال کی گئی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے بعد صوبائی اسمبلی 48 گھنٹوں میں از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

بعد ازاں 18 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کیے تھے۔

دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا، گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں پر ای سی پی سے الیکشن شیڈول طلب کرلیا تھا۔

نیپرا کی جنوری کیلئے بجلی مہنگی کرنے کی منظوری

بسمہ معروف پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی قیادت سے مستعفیٰ

حمیمہ ملک کا دو سال تک تعلقات میں رہنے کا اعتراف