پاکستان

احتساب عدالتوں سے نیب کو واپس بھجوائے گئے کیسز کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا لارجر بینچ کرے گا

عوام کو اپنے منتخب نمائندوں سے سوال کرنے کا حق حاصل ہے، احتساب آرڈیننس میں ترامیم نے انہیں اس حق سے محروم کردیا، درخواست گزار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک لارجر بینچ تشکیل دیا ہے جو گزشتہ برس احتساب آرڈیننس میں ترامیم کے ذریعے دائرہ اختیار محدود کیے جانے کے بعد وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالتوں کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کو واپس کیے گئے ریفرنسز کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) کے سربراہ کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں ترامیم کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

ائی ایچ سی بی اے کے صدر شعیب شاہین نے آرٹیکل اے-2 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو ’اپنے منتخب نمائندوں سے سوال کرنے کا حق‘ حاصل ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ چونکہ ترامیم نے شہریوں کو ان کے نمائندوں سے سوال کرنے کے حق سے ’محروم‘ کردیا ہے اس لیے اس سے آرٹیکل 9، 14 اور 24 کی ضمانت کے مطابق ’زندگی، عزت اور املاک کے تحفظ کے بنیادی حق‘ کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ نیب کی ترامیم نے ’انتہائی سنگین اور زیادہ تر وائٹ کالر جرائم کو قانون کے دائرے سے باہر نکال دیا ہے اور انہیں فوجداری پراسیکیوشن سے مستثنیٰ کردیا ہے۔

قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 سے سیکشن 14 کے اخراج پر بحث کرتے ہوئے درخواست میں کہا گیا کہ حکومت نے ’یقینی بنایا ہے کہ پراسیکیوشن کے لیے سرکاری عہدہ رکھنے والوں کے خلاف وائٹ کالر جرائم ثابت کرنا‘ نا ممکن ہوجائے۔’

درخواست میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ ایک ترمیم نے ’اختیارات کے غلط استعمال‘ کے جرم کا دائرہ کار تبدیل کر دیا ہے جو احتساب سے انکار کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ مقدمات میں ایسے کاموں کو جرم نہیں سمجھا جاتا جہاں کسی شخص کو غیر قانونی فائدہ پہنچانا ثابت ہو لیکن ان فوائد کے لیے رقم کا تبادلہ کرنا نہیں۔

درخواست میں تمام ریگولیٹری اداروں کے عہدیداروں کو ’مکمل استثنیٰ‘ دینے پر سوال اٹھایا گیا ہے جبکہ یہ ادارے مالی مفادات کے لیے اہم معاملات سے نمٹتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مناسب فورم پر آگے منتقل کرنے کے لیے نیب سے متعلق تمام درخواستوں کو یکجا کرنے اور احتساب عدالتوں کے زیر التوا یا واپس کیے گئے مقدمات کی قسمت کا تعین کرنے کا فیصلہ کیا۔

خیال رہے کہ ترمیم شدہ احتساب آرڈیننس کے نفاذ کے بعد وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالتوں نے متعدد سیاسی شخصیات کے خلاف ریفرنسز بیورو کو واپس بھیجے۔

ان میں سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجاپرویز اشرف شامل تھے۔

ڈیرک شولے کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی مدد کے عزم کا اعادہ

اسلام آباد: رہائشی علاقے میں خوف پھیلانے والا تیندوا 6 گھنٹوں بعد قابو کرلیا گیا

امریکا کا ایک بار پھر عمران خان کے ’الزام تراشی کے کھیل‘ کا حصہ بننے سے انکار