سماجی کارکن گلالئی اسمٰعیل کے والدین بغاوت کے مقدمے میں بری
پشاور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سماجی کارکن گلالئی اسمٰعیل کے والدین کو محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے بغاوت، دہشت گردی کی مالی معاونت اور سہولت کاری کے الزامات میں درج مقدمے سے بری کر دیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج فضل ستار نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پروفیسر محمد اسمٰعیل اور ان کی اہلیہ کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔
فیصلے سے قبل گلالئی اسمٰعیل نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’آج پشاور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میرے والدین کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمے کا فیصلہ سنائے گی‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’مقدمہ جولائی 2019 میں درج ہوا اور میرے والدین کو اگست 2020 میں بری کردیا گیا تھا، ایک ماہ بعد کیس دوبارہ کھولا گیا اور میرے والدین پر ایک اذیت ناک مقدمہ چلایا گیا‘۔
واضح رہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے 6 جولائی 2019 کو درج کی گئی ایف آئی آر میں گلالئی اسمٰعیل اور ان کے والدین پر فرد جرم عائد کی تھی۔
گزشتہ سال جولائی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیس میں ثبوت کی کمی کے سبب عبوری چالان (چارج شیٹ) کی بنیاد پر گلالئی اسمٰعیل اور ان کے والدین پر فرد جرم عائد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
عدالت نے اعلان کیا تھا کہ استغاثہ کی جانب سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا، اس لیے ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد نہیں کی جاسکتی اور انہیں ضابطہ فوجداری کے تحت بری کر دیا گیا۔
بعد ازاں محکمہ انسداد دہشت گردی نے مکمل چارج شیٹ جمع کرائی اور مزید دستاویزات پیش کیں جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ملزمان نے دہشت گردوں کو اسلحہ اور ایک کار فراہم کی تھی جو 2013 میں پشاور کے آل سینٹس چرچ اور 2015 میں حیات آباد کی امامیہ مسجد پر حملوں میں استعمال ہوئی تھی۔
بعد ازاں عدالت نے گلالئی اسمٰعیل کے والدین پر 30 ستمبر 2020 کو بغاوت، ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے اور آل سینٹس چرچ اور امامیہ مسجد پر حملوں میں سہولت کاری سمیت متعدد الزامات پر فرد جرم عائد کی۔
ابتدائی طور پر محکمہ انسداد دہشت گردی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ این-11 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی جس میں گلالئی اسمٰعیل اور ان کے والدین پر پشتون تحفظ موومنٹ کے ہمدرد ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا، بعد ازاں ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی کئی دیگر دفعات بھی شامل کی گئیں۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے انسپکٹر محمد الیاس (شکایت کنندہ) نے الزام عائد کیا کہ گلالئی اسمٰعیل ایک تنظیم اویئر گرلز کی چیئرپرسن ہیں اور اس کی آڑ میں وہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے علاوہ ریاست مخالف عناصر کے لیے کام کر رہی تھیں۔
گلالئی اسمٰعیل مئی 2019 میں اس وقت روپوش ہوگئی تھیں جب اسلام آباد میں بچی کے قتل اور جنسی استحصال کے حوالے سے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ان کے خلاف تقریر کے ذریعے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور انتشار پر اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، بعد ازاں وہ ستمبر 2019 میں امریکا میں منظر عام پر آئی تھیں۔