کراچی میں پی ایس ایل کا آغاز، ٹریفک شہریوں کیلئے آزمائش بن گیا
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں گزشتہ روز پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پہلے میچ کے ساتھ ہی شہر کی سڑکوں پر ٹریفک جام سے شہریوں کی آزمائش بھی شروع ہوگئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میچ کے آغاز سے چند گھنٹوں قبل اسٹیڈیم کے اطراف میں ٹریفک کا رخ موڑ دیا گیا، سڑکوں کی بندش نے ٹریفک کی روانی کو مزید مدھم کردیا جو پہلے ہی یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن ریپڈ بس ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تعمیر کی وجہ سے شدید متاثر ہے۔
کراچی ٹریفک حکام نے پی ایس ایل میچ کے لیے سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے ٹریفک کی نقل و حرکت میں کسی بڑی پریشانی کی تردید کی ہے، تاہم اسٹیڈیم کے اطراف میں سفر کرنے والے شہریوں نے خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
ٹریفک کا سب سے زیادہ دباؤ یونیورسٹی روڈ پر دیکھا گیا جہاں حسن اسکوائر کے قریب سے جام ہونے والا ٹریفک نیو ٹاؤن تک پھیل گیا۔
کراچی میں 14 سے 26 فروری کے درمیان کھیلے جانے والے پی ایس ایل میچز کے لیے ٹریفک حکام کی جانب سے جاری کردہ ٹریفک پلان کے مطابق لیاقت آباد نمبر 10، حسن اسکوائر پل سے کسی بھی ٹریفک کو اسٹیڈیم روڈ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ٹریفک پلان میں کہا گیا کہ یونیورسٹی روڈ پرایکسپو سینٹر موڑ سے ٹریفک کو اسٹیڈیم کی جانب جانے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ اسٹیڈیم روڈ سے حسن اسکوائر تک ٹریفک جاری رہے گی، اسٹیڈیم سگنل سے حسن اسکوائر تک ہر قسم کی ہیوی ٹریفک کا داخلہ ممنوع ہو گا۔
اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لیے آنے والے کرکٹ شائقین کے لیے پارکنگ اور متبادل راستوں کے لیے بھی پلان تیار کیا گیا ہے۔
تاہم گزشتہ روز شام 5 بجے کے بعد ٹریفک کی صورتحال خراب ہونا شروع ہو گئی اور غروب آفتاب تک یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک کی صورتحال بدترین شکل اختیار کرگئی۔
لیاقت آباد سے حسن اسکوائر کی جانب جانے والے راشد منہاس روڈ اور سر شاہ محمد سلیمان روڈ سمیت متبادل راستوں پر بھی ٹریفک کا دباؤ دیکھا گیا۔
بعد ازاں تین ہٹی، جہانگیر روڈ (جوکہ پہلے سے ہی کھودا جا چکا ہے)، ناظم آباد، پٹیل پاڑہ اور گرو مندر پر ٹریفک کی روانی متاثر نظر آئی۔
ایک سینیئر ڈاکٹر اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے رکن نے گزشتہ روز کراچی کی سڑکوں پر اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے اس صورتحال پر تنقید کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔
انہوں نے لکھا کہ ’اس صورتحال کے سبب قریب واقع 2 معروف ہسپتال (لیاقت نیشنل ہسپتال اور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال) جانے والے مریض بھی ہسپتال پہنچنے سے قاصر نظر آئے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’حکام کو ٹریفک پلان ترتیب دینے سے قبل اس پر غور کرنا چاہیے تھا، رواں سال یہ پلان بدترین نظر آرہا ہے، 10 سے 12 روز تک ایک ہی تریفک پلان لاگو رکھنا دانشمندی نہیں ہے، یہ شہر کی ٹریفک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا‘۔
ایک صحافی نے کشمیر روڈ سے نیشنل اسٹیڈیم تک اپنے سفر کے دوران پیش آزمائش کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ اتنی پابندیوں اور متبادل راستوں پر شدید ٹریفک کے سبب انہیں منزل تک پہنچنے میں تقریباً 90 منٹ لگے۔